لاہور میرا شہر، جہاں میں پیدا ہوا، پلا بڑھا، بچپن، لڑکپن اور جوانی گذاری اور آج بھی لاہور کی سڑکوں پر زندگی سے لطف اندوز ہو رہا ہوں، لاہور اپنے اندر ایک خاص کشش رکھتا ہے، لاہور لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے، ہم ایسے تو لاہور کی دائمی محبت میں مبتلا ہیں لیکن جو باہر سے بھی آتا ہے، یہاں وقت گذارتا ہے، یہاں گھومتا پھرتا ہے، کھاتا پیتا ہے، لوگوں سے ملتا ہے، خریداری کرتا ہے پھر وہ لاہور کو کبھی بھلا نہیں پاتا۔ یہاں گھومنے والے کے ذہن میں لاہور ایسا سماتا ہے کہ بس پھر وہ زندگی بھر یاد کرتا ہے۔ میں جہاں بھی جاؤں لاہور کی حدود میں داخل ہوتے ہی اپنائیت کا ایک ایسا احساس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی دہائیوں سے بچھڑ ہوا اپنوں سے ملتا ہے، جیسے کسی بے گھر کو گھر مل جائے، جیسے کسی بیمار کو شفا ء نصیب ہو، جیسے کسی نابینا کی بینائی لوٹ آئے۔ دانشوروں کا مخصوص حلقہ لاہور کو گاؤں کہتا ہے ان کے خیال میں روایات، ورثہ، تاریخ اور قدیم تہذیب کے ساتھ زندہ رہنا دیہی طرز زندگی ہے اگر اپنی روایات، قدیم تہذیب اور ثقافت کے ساتھ زندگی گذارنا طعنہ ہے تو مجھے لاہوری دیہاتی ہونے پر فخر ہے۔ یہ پاکستان کا واحد شہر ہے جو اپنی منفرد تاریخ اور روایت کا حامل ہے۔ اس شہر نے سب کے لیے اپنی بانہیں کھولی ہیں، سب کو سمویا ہے اور خوش آمدید کہا ہے۔ یہ شہر آج بھی سینکڑوں سال پرانی عمارات و تہذیب کو زندہ رکھے ہوئے ہے، ہر رنگ، نسل اور زبان بولنے والے یہاں موجود ہیں۔ یہاں بسنے والے آج بھی زندہ دلوں کے نام سے جانے جاتے ہیں کیونکہ جس جوش و جذبے، اپنائیت اور لگن سے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جو لاہور آتا ہے وہ لاہور کے روایتی رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ مجھے اس شہر سے ایسے ہی محبت ہے جیسے مجھے اپنے آپ سے محبت ہے۔ وحید صابر نے بھی لاہور سے جس محبت کا اظہار کیا ہے اور جو حوالے دئے ہیں وہ لاجواب ہیں۔
شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو
قندھار میں آنکھ کھولنے والی مہر النسا لاہور میں نور جہاں بن کر آسودہ خاک ہوئیں لاہور سے انہیں بڑی محبت تھی جس کا اظہار اس لازوال شعر کی صورت میں کیا
لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم و جنتِ دیگر خرید ہ ایم
(لاہور کو ہم نے جان کے برابر قیمت پر حاصل کیا ہے
ہم نے جان قربان کر کے نئی جنت خرید لی ہے)
عبدالقادر حسن نے کیا خوب کہا تھا کہ لاہور اگر بادشاہوں کا شہر تھا تو ہمارے جیسے مسافروں کا شہر بھی تھا۔علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور فیض احمد فیض جیسے دو عظیم شاعر خود چل کر لاہور میں آ بسے اور یہی دفن ہوئے۔ملکہ نور جہاں بھی دریائے راوی کے کنارے آسودہ خاک ہیں،ملکہ نور جہاں لاہور شہر کے عشق میں ایسی مبتلا ہوئیں کہ اس شہر پر مر مٹیں۔ مشہور افسانہ نگار کرشن چندر لاہور میں رہے ، ایف سی کالج میں تعلیم پائی۔وہ اس شہر سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔آزادی کے وقت ہندوستان جانے کے بعد بھی اپنی روح لاہور ہی میں چھوڑ گئے۔اس شہر کا تذکرہ وہ کسی بچھڑے ہوئے محبوب کی طرح رقت آمیز لہجے میں کیا کرتے تھے۔وہ لاہور سے آنے والوں کو بڑی حسرت سے دیکھتے اور اپنے محبوب شہر کے گلی کوچوں ،بازاروں ، عمارتوں ،باغوں کا تفصیل سے حال معلوم کیاکرتے۔کرشن چندر نے احمد ندیم قاسمی کے نام اپنے خط میں لکھا کہ لاہور کا ذکر تو کجا اس شہر کے بارے میں سوچتا بھی ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔راجندر سنگھ بیدی جنہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز محسن لاہوری کے قلمی نام سے کیا تھا،مرتے دم تک لاہور کے عشق میں گرفتار رہے۔لاہور کی باتیں کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔ایک مرتبہ ٹی وی پر انٹرویو کے دوران لاہور کا ذکر آیا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔اے حمید برما میں قیام کے دوران اپنی جنم بھومی امرتسر کی بجائے لاہور کو یاد کیا کرتے تھے۔
اے حمید صاحب کی ایک کتاب ہے ‘‘لاہور کی یادیں ‘‘ اس میں رقمطراز ہیں
لاہور کا نام آتے ہی طلسم و اسرار کی الف لیلہ کا اک باب کھل جاتا ہے خود اس نام میں ایک طلسم ہے ایک پر اسراریت ہے میری رائے میں لاہور محض ایک شہر نہیں ہے یہ ایک کیفیت ہے یہ کیفیت جب اس شہر کی نیم روشن گلیوں اس کے پرانے تاریخی باغوں میں چلنے پھرنے کے بعد دل کی گہرائیوں میں جذب ہو جاتی ہے تو پھر انسان پر اس کیفیت کی حالت طاری ہو جاتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ اس شہر سے اس کی روح کا رشتہ بہت پرانا اور کبھی نہ ٹوٹنے والا ہے۔ سید احمد شاہ پطرس بخاری کا شمار بھی لاہور کے سچے عاشقوں میں ہوتا تھا۔نیویارک میں قیام کے دوران انہوں نے صوفی غلام مصطفٰے تبسم کے نام ایک خط میں پوچھا
"کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے؟"
نوائے وقت میں "لاہور سے لاہور تک" لکھنے والے معروف کالم نگار حسنین جاوید سے پوچھا گیا کہ کالم کا یہ ٹائٹل کیوں رکھا تو انہوں نے جواب دیا میں جہاں بھی جاؤں لاہور ہی واپس پہنچتا ہوں۔ لاہور کی تاریخی حیثیت اپنی جگہ ہے لیکن آج کے جدید دور میں بھی اپنی منفرد شناخت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ لاہور کی گلیاں، لاہور کی سڑکیں، لاہور کے روایتی کھانے، لاہور کے باغات، لاہور کی تاریخی عمارتیں سب کا حسن اور کشش برقرار ہے۔ یہاں رہنے والے اپنا روایتی طرز زندگی برقرار رکھے ہوئے ہیں اور یہ ان کی اپنے پرانے لاہور سے محبت کا منفرد انداز ہے کہ اگر کوئی اس وجہ سے انہیں "پینڈو" کہتا ہے تو وہ لاہور کی محبت میں خوش ہوتے ہیں۔ یہ میرا لاہور ہے اور مجھے اس شہر سے نسبت پر فخر ہے۔
حبیب جالب کا کلام
کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں
بیتے ہوئے دن رات نہ یاد آئیں تو سوئیں
چہرے جو کبھی ہم کو دکھائی نہیں دیں گے
آ کے تصور میں نہ تڑپائیں تو سوئیں
برسات کی رت کے وہ طرب ریز مناظر
سینے میں نہ اک آگ سی بھڑکائیں تو سوئیں
صبحوں کے مقدر کو جگاتے ہوئے مکھڑے
آنچل جو نگاہوں میں نہ لہرائیں تو سوئیں
محسوس یہ ہوتا ہے ابھی جاگ رہے ہیں
لاہور کے سب یار بھی سو جائیں تو سوئیں
ناصر کاظمی کا کلام
اوّلیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو
یاد آئی تیری انگشتِ حنائی مجھ کو
سرِ ایوان طرب نغمہ سرا تھا کوئی
رات بھر اْس نے تیری یاد دلائی مجھ کو
دیکھتے دیکھتے تاروں کا سفر ختم ہْوا
سو گیا چاند مگر نیند نہ آئی مجھ کو
سائے کی طرح میرے ساتھ رہے رنج و اَلم
گردشِ وقت کہیں راس نہ آئی مجھ کو
دھوپ اْدھر ڈھلتی تھی دل ڈوبتا جاتا تھا اِدھر
آج تک یاد ہے وہ شامِ جدائی مجھ کو
شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہَوا کھینچ کے لائی مجھ کو