”نگران حکومت“ حقیقت اور قیاس آرائی

Jan 31, 2013

خواجہ فرخ سعید
اب جبکہ موجودہ حکومت اپنی مدت کے پانچ سالوں میں سے چار سال دس ماہ اور کئی دن مکمل کر چکی ہے اور کسی بھی وقت اسمبلیاں تحلیل کئے جانے اور نگران حکومتوں کے قیام کا اعلان ہو سکتا ہے، پیپلزپارٹی کے اہم رہنما میاں رضا ربانی الیکشن کی بجائے تین سال کی حکومت لانے کی سازش کی بھی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اگرچہ میاں رضا ربانی نے سازش تیار کرنے والوں کی نشاندہی نہیں کی تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی ملک میں الیکشن کا وقت قریب آتا ہے اس قسم کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں کہ ”نگران آئیں گے تو جائیں گے نہیں“ لیکن اس مرتبہ جبکہ پاکستان میں جمہوری حکومت کسی جنرل کی چھتری کے بغیر اپنے پانچ سال پورے کر رہی ہے اس طرح کی باتوں کو عجیب اور بے سروپا ہی کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ حکومت کے پانچ سالوں کے ابتدائی عرصے میں سابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ق) نے ”مثبت اپوزیشن“ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے حکومت کو فری ہینڈ دیا اور پھر مسلم لیگ (ن) نے مرکزی حکومت سے نکلنے کے باوجود کسی بھی مرحلے پر حکومت گرانے کی کوشش نہیں کی۔ اگر کسی جانب سے ایسی تحریک سامنے بھی آئی تو نوازشریف نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ”ہم اس کھیل کا حصہ نہیں بنیں گے۔“
بلاشبہ موجودہ حکومت کی مدت اقتدار پوری کرنے کا کریڈٹ ملک کے تمام سیاستدانوں کو جاتا ہے اب جبکہ ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ عام انتخابات ہوں، لوگ بھی ووٹ کے ذریعے حکومت کی کارکردگی کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ میڈیا بھی واچ ڈاگ کا کردار ادا کر رہا ہے کسی بھی ”قوت“ کے لئے کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ الیکشن کو سبوتاژ کرے۔ ہمیں یقین ہے کہ الیکشن ”مئی“ میں ہو جائیں گے۔ پردے کے پیچھے اگر کوئی طاقت متحرک ہونے کی کوشش بھی کرے گی تو اب یہ2013ء کا زمانہ ہے، ایسا کچھ ہوا تو پاکستان کو ناقابلِ تالافی نقصان پہنچے گا۔
 اس وقت نگران وزیراعظم کے نام پر مشاورت کا عمل جاری ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خاں اپوزیشن جماعتوں میں ”نگران“ کے لئے ناموں پر جو اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اسے ذاتیات کی حد سے اوپر اٹھ کر کامیاب بنایا جائے۔ اُدھر ڈاکٹر طاہرالقادری سے مشاورت کے بعد حکمران اتحاد بھی دو تین نام طے کر لے تو وقت ضائع کئے بغیر متفقہ نگران وزیر اعظم کا اعلان کر دیا جائے تاکہ بے یقینی کی فضا ختم ہو اور ملک و قوم انتخابات کی جانب قدم بڑھا دے۔
 لاہور میں نئے بلاول ہا¶س کی تعمیر آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ بحریہ ٹا¶ن سے ملحقہ وسیع و عریض رقبے پر قائم کئے جانے والے ”بلاول ہا¶س“ میں رہائشی کے علاوہ پارٹی سیکرٹریٹ اور کانفرنس ہال بھی بنائے گئے ہیں۔ اگلے ایک دو ہفتوں میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو لاہور آئیں گے جہاں وہ نہ صرف نوازشریف اورشہبازشریف کے بھائی عباس شریف مرحوم کی وفات پر تعزیت کےلئے جاتی عمرہ رائے ونڈ جائیں گے بلکہ اپنی نئی لاہوری رہائش گاہ میں سیاسی ڈیرہ بھی ڈالیں گے۔
ان دنوں نوازشریف نجی دورے پر ملک سے باہر ہیں۔ پچھلے دنوں شریف فیملی جس صدمے سے دوچار ہوئی اس سے باہر نکلنے کےلئے فیملی کے ممبران ”درِمصطفی“ پر حاضری دینے گئے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ عباس شریف کی موت پر ملک کے تمام ہی طبقات کے نمایاں افراد نے شریف برادران کے ساتھ اظہار تعزیت کیا۔ اُن کے عمرے کی ادائیگی کےلئے سعودی عرب جانے سے پہلے جس بھاری بھرکم علماءکے وفد نے اُن سے اظہار افسوس کیا۔ اُن کی قیادت بزرگ عالمِ دین اور جمعیت علماءاسلام (س) کے مرکزی امیر مولانا سمیع الحق کر رہے تھے۔ اُن کے وفد میں نہ صرف اُن کی جماعت کے سرکردہ رہنما تھے بلکہ اہل سنت والجماعت پاکستان کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی اور جمعیت اہل حدیث پاکستان کے ناظم اعلیٰ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر بھی شامل تھے۔ ہمارے علم کے مطابق اس وفد میں شامل لگ بھگ تمام علماءکرام ”دفاع پاکستان کونسل“ کا حصہ ہیں۔ بعض سیاسی حلقے اس تعزیتی ملاقات کا سیاسی پہلو بھی تلاش کر رہے ہیں۔ اگر واقعی مسلم لیگ (ن) اور اُس کی اتحادی جماعتوں کا دفاع پاکستان کونسل سے ”اشتراک عمل“ ہو جاتا ہے تو اس سے ملک میں دینی قوتوں کے بکھرے ہوئے ووٹروں کو ایک جگہ جمع کرنے کا موقع مل جائے گا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے زوردار آواز میں پاکستانی سیاست میں واپسی کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے اپنی پاکستان عوامی تحریک کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے آنے والے عام انتخابات کا عوام فیصلہ کریں گے کہ ڈاکٹر صاحب کو کتنی سیاسی پذیرائی حاصل ہے۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر قادری وہ خوش قسمت شخص ہیں جنہیں سیاسی طور پر دو مرتبہ ڈوبنے کے باوجود تیسری مرتبہ ابھرنے کا موقع ملا ہے۔ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کا پہلا عروج اُس وقت زوال میں تبدیل ہوا جب لاہور ہائی کورٹ میں اُن کی رسوائی ہوئی۔ ایسا لگتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا سیاسی کیریئر ختم ہو گیا مگر 1997ءکے عام انتخابات کے بعد قسمت نے یاوری کی اور نہ صرف ڈاکٹر صاحب سیاسی میدان میں دوبارہ مقام پا گئے بلکہ انہیں اُس سیاسی اتحاد کی سربراہی نصیب ہوئی جس میں شہید بے نظیر بھٹو اور نوابزادہ نصراللہ خاں جیسی قد آور سیاسی شخصیات شامل تھیں۔ الیکشن 2002ءمیں پاکستان عوامی تحریک بہت بُری طرح پٹ گئی اور ماسوائے ڈاکٹر صاحب کے اُن کے تمام ہی امیدوار ہار گئے تھے ۔ تب انہوں نے فیصلہ سنایا کہ موجودہ انتخابی نظام میں وہ ووٹ کے ذریعے انقلاب نہیں لا سکتے چنانچہ پاکستان عوامی تحریک کو انہوں نے ادارہ منہاج القرآن کا ذیلی ونگ بنا دیا۔ 2005ءمیں قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کے بعد ڈاکٹر صاحب کینیڈا چلے گئے اور وہاں کی شہریت لے لی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ پاکستان کی سیاست میں ڈاکٹر طاہرالقادری کو ایک مرتبہ پھر اہم مقام حاصل ہو جائے گا مگر ایسا ہو چکا ہے اُن کے لانگ مارچ نے اُن کے سیاسی قد میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ ڈاکٹر صاحب اپنی بے پناہ علمی قابلیت کے ساتھ عوام کی فلاح کےلئے کوئی کردار ادا کر پائیں گے یا خدانخواستہ ناکامی کے بعد عازم کینیڈا ہو جائیں گے۔

مزیدخبریں