راو شمیم اصغر
بہاولپور کو صوبائی دارالحکومت بنا کر بہاولپور جنوبی پنجاب کے نام سے نئے صوبے کی تشکیل کی بحث فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ مجوزہ صوبے میں ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور ڈویژنوں کے ساتھ میانوالی ، بھکر کو شامل کرنے کی سفارشات تیار ہو گئی ہیں تو اس کے بعد ضلع ملتان، بہاولپور ڈویژن، میانوالی اور بھکر کے اضلاع میںبڑے پیمانے پر ردعمل کا اظہار ہوا۔ میانوالی شہر ایک روز کیلئے مکمل طور پر بند ہوا بھکر میں بھی پڑھے لکھے طبقے کی جانب سے شدید مخالفت سامنے آ چکی ہے۔ ملتان میں سرائیکی صوبہ کے تقریباً تمام حامیوں نے مجوزہ صوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ بہاولپور ڈویژن میں بہاولپور صوبہ کی بحالی کے چاہنے والے بھی زیر تجویز نئے صوبے پر شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی قوت کو کمزور کرنے اور سیاسی فائدے حاصل کرنے کیلئے جس ڈرامے کی ابتداءکی تھی اس کا تازہ ترین ایکٹ خود پیپلز پارٹی کیلئے خطرناک مرحلے میں داخل ہو گیا ہے لیکن اس ساری صورتحال کا پیپلز پارٹی کو بہرحال ایک فائدہ حاصل ہوا ہے کہ وہ مسائل جن کی بنیاد پر پاکستان پیپلز پارٹی کو مشکلات کا سامنا تھا وہ تمام اس نئے ایشو میں دب کر رہ گئے ہیں پیپلز پارٹی نے نئے صوبہ یا صوبوں کے بارے میں جس جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے اس پر یہ امکانات بھی پیدا ہو گئے ہیں کہ خود پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے معاملات نہ نکل جائیں۔ پیپلز پارٹی کو میانوالی کے عوام سے پہلے بھی ووٹ کی خیر پڑنے کی توقع زیادہ نہیں تھی اب وہ بچی کھچی حمایت سے بھی محروم ہوتی نظر آ رہی ہے یہ ہی صورتحال بھکر کی بھی ہے میانوالی سے بہاولپور کا فاصلہ تقریباً 400 کلومیٹر ہے انہیں لاہور اس سے کہیں زیادہ قریب پڑتا ہے۔ بھکر کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہے رحیم یار خان سے گورنر بنانے کے بعد پیپلز پارٹی اندرونی طور پر جہاں اختلافات کا شکار ہوئی وہاں وہ سیاسی فوائد بھی حاصل نہیں کیے جا سکے جن کی نئے گورنر بناتے وقت توقع کی جا رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کی ایک طاقتور شخصیت مخدوم شہاب الدین جو وزارت عظمیٰ کے انتہائی قریب پہنچ کر پسپا ہوئے وہ مخدوم احمد محمود کی آمد سے خوش نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہاولپور کے عوام کی جانب سے پیپلز پارٹی کو بہاولپور جنوبی پنجاب صوبے کے ذریعے جس حمایت کی توقع تھی وہ معاملہ بھی الٹ ہو گیا ہے۔ میاں شہباز شریف دو روز قبل ملتان اور بہاولپور کا دورہ کر کے گئے تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم بہاولپور صوبہ کی بحالی اور جنوبی پنجاب کے نام سے دو صوبے بنانا چاہتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں بھی یہ ہی قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوئی تھی۔ خود پیپلز پارٹی کے اراکین پنجاب اسمبلی نے بھی اس قرارداد کو منظور کیا تھا کہ بہاولپور صوبہ کو بحال کر دیا جائے اور جنوبی پنجاب کے نام سے نیا صوبہ بنایا جائے۔ پیپلز پارٹی جس جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے کو نمٹانے کی کوشش کر رہی ہے یہ اس جلد بازی کا نتیجہ ہے کہ وہ بہاولپور جنوبی پنجاب کے نام سے ایک صوبہ کی سفارشات مرتب کرتے وقت بھول گئی کہ وہ خود پنجاب اسمبلی میں دو صوبوں کی قرارداد منظور کر چکی ہے۔ پھر کمیشن کو جو مینڈیٹ ملا وہ دو صوبوں کے بارے میں تھا۔ کمیشن نے بھی اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے وہ ایک صوبے کی سفارش کر ہی نہیں سکتا۔ ایک معروف پارلیمانی طریقہ ہے کہ جب بھی آئینی ترمیم پیش کی جاتی ہے تو تمام پارلیمانی گروپوں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے ۔مسلم لیگ (ن) نے کمیشن پر اعتراض کیا تھا تو پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی جانی چاہیے تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے اعتراضات پر مذاکرات ہونے چاہئیں تھے۔ انہیں ہر قیمت پر کمیشن میں لایا جانا چاہیے تھا۔ جس گھر کی تقسیم ہو رہی ہے اس گھر کے عارضی سربراہ کو تقسیم کے وقت درمیان میں بٹھانا فطری عمل ہے۔پارلیمانی روایات کے مطابق پیپلز پارٹی کی جانب سے کوئی ایسی کوشش بھی سامنے نہیں آ رہی کہ جس سے یہ واضح ہو کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے مجوزہ بل کی حمایت چاہتی ہے۔
ترمیمی بل اسمبلی میں جانے سے قبل نئے این ایف سی ایوارڈ کی بھی ضرورت تھی جو جلد بازی کی نذرہو گیا۔ پانی کی تقسیم سب سے اہم معاملہ ہے بہاولپور صوبہ بحال ہو یا بہاولپور جنوبی پنجاب صوبہ بنے یا دو صوبے بنیں ان کیلئے پانی کی تقسیم کا طریقہ کار بھی طے کرنا ہوگا۔چنانچہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بہاولپور صوبہ کی بحالی اور جنوبی پنجاب نام کے دو صوبے بنانے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کر کے گیند دوبارہ پیپلز پارٹی کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ اس اعلان کے بعد اس خطے سے یہ آوازیں آنا بند ہو گئی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نیا صوبہ یا صوبوں کی تشکیل کے معاملے سے دشمنی کر رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کی یہ حیثیت نہیں کہ وہ آئینی ترمیم کر سکیں۔ دو تہائی اکثریت دونوں کے پاس نہیں۔ دونوں کے بل قومی اسمبلی میں جائیں گے جہاں پوائنٹ سکورنگ کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جائے گا اور پھر انتخابات کا اعلان ہو گا صوبوں کا معاملہ یونہی دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔