اس وقت پی پی پی کی وسیع البنیاد اتحادی سرکار کی جمہوری مدت ختم ہونے کو ہے مگر انہوں نے صدارتی ہدایات کے تحت نیا بہاولپور جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کیلئے تفصیلی سفارشات مرتب کر لی ہیں۔ پاکستان میں صوبہ سازی امریکی و اتحادی پالیسی کی حکمت عملی ہے۔ حملہ آور امریکہ و اتحادی ممالک افغانستان کے بے آب و گیاہ پہاڑوں یا فوجی ناکامی کیلئے نہیں آئے۔ ان کا ہدف بگرام سے گوادر اور کراچی کی راہداری پر انتظامی اور تجارتی عملداری ہے۔ جس کی بازگشت عالمی منڈی کو متاثر کرتی ہے۔ امریکہ کو افغانستان سے فوجی انخلاء2014ءسے پہلے پاکستان کو خودمختار انتظامی صوبوں میں تقسیم کرنا ہے۔
موجودہ پنجاب پاکستان کی سیاسی‘ معاشی‘ انتظامی اور فوجی طاقت کا مرکز ہے۔ پنجاب کی شریف حکومت زرداری اور امریکی مفاہمتی پالیسی کا حصہ نہیں۔ پنجاب کی طاقت امریکی اغراض و اہداف میں حائل ہے۔ افغانستان میں امریکی ناکامی کا دارومدار بھی پنجاب کی انتظامی صلاحیت اور قوت پر ہے۔ امریکہ کو بذریعہ زرداری جلدی پڑی ہے کہ پنجاب میں امریکہ نواز مفاہمتی تبدیلی لائی جائے نیز پنجاب کی انتظامی طاقت کو صوبہ سازی اور صوبہ بازی کے ذریعے کمزور کیا جائے۔ گو نئے صوبے کا نام‘ حدود اور رقبے کا تعین ہو گیا ہے مگر سفارشاتی کمیٹی میں پنجاب حکومت کی نمائندگی نہیں۔ الیکشن سے قبل نئے صوبے کا قیام مشکل اور ناممکن ہے مگر ملک میں بالخصوص پنجاب صوبہ بازی اور ضلع بچا¶ عوامی تحریکوں کی لپیٹ میں آ جائے گا‘ جیسا کہ ”میانوالی بچا¶“ تحریک شروع ہو گئی۔ ماضی میں ضلع ڈیرہ غازیخان بلوچستان کا حصہ رہا تھا‘ لہٰذا اسے بلوچستان کا ازسرنو حصہ بنانے کیلئے تحریک شروع ہو جائے گی۔ بلوچستان میں بلوچ قبائل کے علاوہ پختون بھی مختلف علاقوں میں اکثریت میں ہیں لہٰذا بلوچستان میں لسانی اور قبائلی بنیاد پر نئی صوبہ سازی کی تحریکیں شروع ہونے کا خدشہ ہے جبکہ صوبہ سرحد کا نام سرحدی گاندھی عبدالغفار خان کی سیاسی پارٹی اے این پی کی خوشنودی کیلئے خیبر پختونخواہ رکھا گیا ہے۔ خیبر پختونخواہ نام نسلی اور علاقائی شناخت کا عکاس ہے۔ لہٰذا خیبر پختونخواہ میں غیر پختون ہزارہ صوبہ سازی کی تحریک شروع ہو گئی۔ سندھ میں سندھی اور مہاجر تحریک پہلے ہی سرگرم عمل ہے جبکہ پنجاب میں نئے صوبے بہاولپور جنوبی پنجاب کے محرک بھی سندھی‘ مہاجر اور سرحدی گاندھی کی نام نہاد سیاسی لسانی اور صوبائی پارٹیاں بھی اے این پی‘ ایم کیو ایم اور پی پی پی ہیں۔ فی الحقیقت پنجاب کی موجودہ مجوزہ تقسیم پاکستان کے اندر نسلی‘ لسانی‘ انتظامی اور قومیتی تقسیم در تقسیم کا در کھولے گی جو بالآخر حملہ آور امریکہ و اتحادی ممالک کے اہداف کو ممکن بنانے کا ذریعہ بنے گی۔
پاکستان کی تقسیم در تقسیم کا خواب اور پالیسی نئی نہیں۔ اس پالیسی اور حکمت عملی کا عندیہ امریکی یہودی تھنک ٹینک پروفیسر ہنز فری Henz Frey نے 4 سال قبل سنٹر فار جنوبی ایشیا سٹڈیزپنجاب یونیورسٹی میں دیا تھا۔ پروفیسر ہنز فری کا م¶قف تھا کہ موجودہ مسائل کا واحد حل پاکستان کو قومیتی اور انتظامی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کرنا ہے۔ جس کے ذریعے ملک میں گڈ گورننس قائم کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ وسیع البنیاد مفاہمتی و اتحادی پی پی پی سرکار مذکورہ پالیسی پر کام کر رہی ہے۔
پنجاب میں نئی صوبہ بازی کی پالیسی پاکستان کی جغرافیائی سلامتی کیلئے انتہائی مہلک ہے۔ عالمی سیاست و معیشت میں ایشیا کا مستقبل روشن اور تابناک ہے حملہ اور امریکہ و اتحادی ممالک ”روشن ایشیا“ کا مستقبل اپنے حق میں رکھنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا جنوبی ایشیا کا نقشہ اپنی مرضی سے مرتب کر رہے ہیں۔ فی الحال پاک افغان مجاہدین بشمول پاک فوج‘ ISI اور غیر مفاہمتی شریف پنجاب جدا جدا انداز میں اپنے لئے مزاحمت کر رہے ہیں۔ ان سب کا اتحاد امریکہ اور پاکستان کی اتحادی سرکار کیلئے ناکامی و نامرادی کا پیغام ہے۔ یہ اتحاد کب اور کیسے ہو گا‘ اس کے بارے میں کچھ کہنا فی الحال مشکل ہے۔ البتہ پاکستان میں قومیتی و انتظامی تقسیم کے اغراض و مقاصد کا پس منظر‘ پیش منظر اور اثرات درج ذیل ہیں۔
تحریک پاکستان ہندی مسلمانوں کی ملی وحدت اور قومی اخوت کا اظہر ہے۔ علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد (دسمبر 1930ئ) میں آزاد مسلم ہند کی ریاست کا مطالبہ کیا۔ قائداعظم نے اقبالی مطالبے کو عوامی بنایا جبکہ انگریز سرکار نے چودھری رحمت علی کے ذریعے تحریک پاکستان کے مذکورہ قومی و ملی شعور کو زک پہنچانے کیلئے مسلمانوں کے اندر علاقائی‘ قبائلی‘ نسلی‘ لسانی تقسیم کے مطابق مختلف اسلامی ریاستوں کا تصور دیا۔ برطانوی سرکار حملہ آور امریکہ و اتحادی ممالک کا حصہ ہے اور اپنے ہمنوا نیٹ ورک کے ذریعے نظریاتی پاکستان میں قومیتی پالیسی Nation Stalis Policy پر کام کر رہی ہے۔ امریکہ و اتحادی ممالک کی لاڈلی ریاست اسرائیل ہے۔ جس کا حفاظتی حصار ہمسایہ قومیتی‘ اقلیتی اور انتظامی ریاستیں ہیں۔ اگر امریکہ کو خطے میں رہنا ہے تو اسے پاک افغان (افپاک) بلکہ کسی حد تک بھارت کو بھی قومیتی‘ نسلی اور لسانی بنیاد پر تقسیم کرنا ہے تاکہ امریکی مفاد میں کوئی بڑی طاقت حائل نہ ہو۔ پاکستان میں نسلی‘ لسانی‘ قبائلی‘ علاقائی قومیتی تقسیم ضروری ہے جس کو گڈ گورننس اور انتظامی ضرورت کا نام دے کر صوبہ سازی کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں پی پی پی‘ ایم کیو ایم اور اے این پی سے گلہ نہیں‘ البتہ گلہ عظیم محب وطن پیر پگارو کے عزیز (مسلم لیگ ف) گورنر پنجاب محمود احمد سے ہے جو ہوس اقتدار میں زرداری کے ساتھی بن گئے ہیں۔ گلہ عمران خاں اور جماعت اسلامی سے بھی ہے جو ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے ہیں مگر امریکہ و اتحادی ممالک کی پالیسی اور حکمت عملی سمجھنے کو تیار نہیں۔ تبدیلی خطے کی مجبوری ہے مگر یہ تبدیلی پاکستان کیلئے اس وقت مفید ہو گی جو پاکستان کی منتشر سیاسی قیادت متحد ہو کر کام کرے گی۔ وگرنہ تبدیلی کے نعرے ذاتی انا کی تسکین کریں گے‘ پاکستان کو غیر ملکی اتحادی مداخلت سے پاک اور محفوظ نہیں رکھ سکیں گے۔
پنجاب کی صوبہ بازی .... پس منظر‘ پیش منظر
Jan 31, 2013