جمعرات،18 ربیع الاوّل ‘ 1434ھ ‘31 جنوری2013 ئ


پی آئی اے کے کپتان نے عزیزہ کی خاطر طیارہ اسلام آباد کی بجائے لاہور ائر پورٹ پر اتار لیا، مسافروں کا احتجاج۔
پی آئی اے کے بارے میں جتنے نوحے ہم نے پڑھے اگر یہ کسی مُردے پر پڑھے جاتے تو وہ بھی زندہ ہو جاتا لیکن پی آئی اے ایک ایسا مرُدہ گھوڑا ہے جو مسیحا کے ہاتھ لگانے سے بھی زندہ نہیں ہو رہا۔ پی آئی اے میں سفر کرنےوالوں کی صدائے احتجاج پنجابی کے اس اکھان سے مختلف نہیں ہے ....
”غریب مُلاں دی بانگ کون سُندا اے“
گذشتہ روز مسافروں کے احتجاج پر کپتان نے کان نہیں دھرا اور اسلام آباد کی بجائے لاہور آ کر اس نے سانس لیا صرف اپنی عزیزہ کی خاطر مسافروں کو ہائی جیک کیا گیا۔ پی آئی اے سے ہم قطعاً مایوس نہیں کیونکہ مایوس تو وہ ہے جس کے پاس ہُنرمند دیانتدار افراد کی کمی ہو۔ ہمارے پاس تو اہل افراد کی کریم موجود ہے، اس وقت ہمارے سسٹم اور ملک کو دیانتدار افراد مہیا کرنے کی ضرورت ہے پھر جہاز تو کیا ”جہاج“ بھی اُڑنا شروع ہو جائیں گے۔ پی آئی اے کے کپتان نے عوامی احتجاج پر فلائیٹ کو اسلام آباد نہیں اتارا تو دوسرا کپتان کیا گُل کِھلائے گا اس لئے ذرا سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیے گا کیونکہ کپتان کپتان ہوتا ہے چاہے کرکٹ ٹیم کا ہو یا ”جہاج“ کا۔ اس وقت پی آئی اے تو سب کچھ ”پی“ گئی ہے، قومی ائر لائن سے جنم لینے والی کمپنیاں آج ستاروں پر کمندیں ڈال رہی ہیں اور ہمارے جہاز ”جہاج“ بن کر آرام کر رہے ہیں اور کچھ نہیں تو دوسروں کی دیکھا دیکھی ہی شرم کر لو تاکہ کاروبارِ زندگی تو چلتا رہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
نارنگ منڈی : بیلداروں کی تنخواہ بند، دوا نہ ملنے پر ایک کی والدہ جاں بحق، زبردست مظاہرہ!
بچارے بیلداروں کی تنخواہ پہلے ہی مونگ پھلی کے دانے کے برابر ہوتی ہے اگر وہ بھی ادا نہ کی جائے تو کتنا بڑا ظلم ہو گا۔ 200 بیلدار سارا دن نہروں کے کنارے درست کر کے تھک جاتے ہیں انہیں 14 ماہ سے تنخواہ نہیں مل سکی۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ نہر کا پانی پی کر گزاراکرلو۔ محکمہ انہار کے ریکارڈ کے مطابق تو تنخواہیں ہر مہینے نکلوائی جاتی ہیں لیکن حقداروں کے پاس پہنچتی ہی نہیں۔ ہر کوئی ایکسین انہار، ایس ڈی او، سب انجینئرز کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک کرپٹ افراد نے لوٹ مار مچا رکھی ہے ہر کوئی بقدر جُثہ اپنا حصہ وصول کر رہا ہے۔ مزدوروں کی حالت تو یوں ہو چکی ہے ....
گیلے کاغذ کی طرح زندگی ٹھہری اپنی
کوئی لکھتا بھی نہیں کوئی جلاتا بھی نہیں
پاکستان میں غریب ہونا تو جرم بن چکا ہے بڑے بڑے مگرمچھ غریبوں کو ہڑپ کر رہے ہیں۔ خادمِ پنجاب صاحب چند فٹ کے فاصلے پر تنخواہوں کی 14 ماہ سے گڑبڑ لیکن آپکی پرواز وہاں نہیں پہنچی۔ دوائی نہ ملنے پر ماں اُس جہان پہنچ گئی جہاں سے واپسی ممکن نہیں، ذرا انصاف کا گُرز ماریں اور کروڑوں روپے ڈکارنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کر کے بیلداروں کے چولہے تو جلنے دیں۔ اگر ابھی آپ نے انہیں نکیل نہ ڈالی تو 200 خاندان کس کے سامنے دُہائی دیں گے۔ لہٰذا فرصت کے چند لمحات نکال کر بیلداروں کو سینے سے لگا کر ان کا دکھ درد دور کریں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
شادی کی عمر نہیں رہی : عمران خان
شادی کی عمر اگر نہیں رہی تو پھر وزیراعظم کی عمر کہاں ہے؟ وزیراعظم تو جوان کو ہونا چاہئے تاکہ کوئی تبدیلی آ سکے۔ اس عمر میں آپ تبدیلی کیسے لائیں گے۔ پہلے اپنے آپ میں تبدیلی لائیں پھر انقلاب آسان ہو جائے گا۔ آپ کے پاس تجربے کرنے کا وقت نہیں اور نہ ہی ہمارے میں ہمت ہے کہ ہم مزید تجربات اپنے اوپر برداشت کریں۔ خان جی اعلان کر دیں جب تک وزیراعظم نہیں بنوں گا شادی نہیں کروں گا، یقین کریں پھر تو بہت سارے سیاسی لوگ سُکھ کا سانس لیتے نظر آئیںگے کیونکہ ایسی قیدیں انسان کسی کام سے مایوس ہو کر ہی لگاتا ہے۔ آپ اپنے ننھے بچوں کولندن سے واپس لا کراگرٹاٹ سکول میں پڑھائیں گے تو پھر ہی انقلاب آئے گا کیونکہ پھر امیر اور غریب کے بچے کے مابین تفریق ختم ہو جائے گی اور یہی انقلاب کی پہلی سیڑھی ہے۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا ....
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
پنجاب بھر میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال 13ویں روز بھی جاری۔
جب مسیحا آنکھیں بند کر لیں تو پھر عوام کو موت کے منہ میں جانے سے کون بچا سکتا ہے۔ مریض تڑپ رہے ہیں اور مسیحا ہنس رہے ہیں، ہسپتالوں میں جائیں تو ڈاکٹرز کی کرسیوں پر بلیاں بیٹھی دکھائی دیتی ہیں۔ ڈینگی کی طرح خسرے نے سر اٹھا لیا ہے لیکن ینگ ڈاکٹرز دما دم مست قلندر کر رہے ہیں۔ سینئرز ڈاکٹرز بھی جونیئرز کی دیکھا دیکھی آگے پیچھے ہیرا پھیریوں پر شروع ہو گئے ہیں۔ جب مسیحا ہی قاتل بن جائیں تو پھر موت سے کون لڑ سکتا ہے۔ آپ کسی بھی سرکاری ہسپتال میں چلے جائیں وہاں آجکل آپ کو ایسے ڈاکٹر ملیں گے جو واقعی نیم حکیم خطرہ جان ہیں، مریض کو بن دیکھے ایک گٹھڑی بھر دوائیاں لکھ دیں گے جن کا شاید مرض سے دور کا بھی تعلق نہ ہو۔ یہ نئے چہرے ابھی زیر تعلیم ہیں کیونکہ پرانے تو ہڑتالی کیمپوں میں بیٹھے ہوئے ہیں جب یہ بھی پرانے ہو جائیں گے تو پھر ”پَر“ نکالنا شروع ہو جائینگے اور بلیک میلنگ سے اپنی مراعات میں اضافے کا مطالبہ کریں گے۔ ہڑتالی ڈاکٹرز کو اپنے پیشے کا لحاظ نہیں تو خدارا اسے بدنام مت کریں گھروں کو چلیں جائیں یا پھر انسان بن جائیں اگر انہیں شرم نہیں تو حکومت ذرا سختی کرے تاکہ تڑپتی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکے۔

ای پیپر دی نیشن