اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت رپورٹ+ثنا نیوز) سپریم کورٹ نے رینٹل پاور عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین نیب ایڈمرل (ریٹائرڈ) فصیح بخاری کی جانب سے صدر آصف علی زرداری کو لکھے گئے خط کی تصدیق شدہ کاپی آج عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ فاضل چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ بادی النظر میں اس خط کے مندرجات عدالت کے خلاف نفرت پھیلانے کے زمرے میں آتے ہیں اور جو شخص ایسا کرتا ہے وہ توہین عدالت کا مرتکب ہوتا ہے۔ جس کے ذریعے عدالت کو دباﺅ میں لانے کی کوشش کی گئی ہے ہم نے 3 نومبر 2007ء کو پرویز مشرف کی ایمرجنسی میں دباﺅ قبول نہیں کیا چیئرمین نیب عدالتوں پر دباﺅ ڈالنے کی باتیں کر رہے ہیں، یہ سب ان کے خلاف جائے گا ہم کسی کو عدلیہ کی تضحیک کی اجازت نہیں دیں گے۔ چیئرمین نیب عدالت کے خلاف نفرت ابھار رہے ہیں، جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر چیئرمین نیب نے خط لکھا ہے، عدالتیں قانون کے مطابق کام کرتی ہیں، جان چھڑانے کا طریقہ یہ ہے کہ عدالتیں ہی ختم کردیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس گلزاراحمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بدھ کے روز رینٹل پاور کیس کی سماعت کی تو چیئرمین نیب ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری عدالت میں پیش نہ ہوئے جبکہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے ان کی غیر حاضری کے حوالے سے عدالت کو وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے چیئرمین نے اتھارٹی کو کوئی خط لکھا ہے جس میں عدالت کے دائرہ اختیار کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے ہم نے اس خط کے مندرجات اخبارات میں پڑھے ہیں اور ٹیلی ویژن چینلز پر دیکھے ہیں جس میں استعمال کی گئی زبان بادی النظر میں عدالت کے خلاف نفرت پھیلانے کے زمرے میں آتی ہے اور اس کے ذریعے عدالت کو دباﺅ میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ خط کے مقاصد کیا ہیں اور یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کیا قانون کے مطابق چیئرمین نیب کو خط لکھنے کی اجازت ہے یا نہیں ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر جنرل کے ذریعے چیئرمین نیب کو آج خط کی تصدیق شدہ کاپی جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی بتایا جائے کہ خط کی کاپی کس کس عہدیدار اور میڈیا کو بھیجی گئی تھی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں آئین کے تحت کام کرتی ہیں اور کرتی رہیں گی، تین نومبر کو باوردی جرنیل کو بھی عدالت کے اختیار سماعت میں مداخلت کی اجازت نہیں دی تھی اور نہ ہی آئندہ کسی کو دیں گے۔ چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر جنرل سے استفسار کیا کہ کیا خط میں چیئرمین نیب نے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے اس پر کے کے آغا کا کہنا تھا کہ شاید ایسا ہی ہے لیکن یہ ایک عام سا خط ہے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتیں آئین کے مطابق کام کر رہی ہیں مگر ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ایسی کیا وجہ تھی جس پر چیئرمین نیب صدر کو خط لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس خط کو لکھنے کا مقصد کیا تھا؟ کیا چیئرمین نیب عدالت پر دباﺅ ڈالنا چاہتے ہیں؟ کہیں چیئرمین نیب زیر التوا مقداات پر اثرانداز تو نہیں ہونا چاہتے؟ چیئرمین نیب عدالت کے خلاف نفرت ابھا رہے ہیں اس خط کے مندرجات بہت سنگین ہیں، ہم اس خط کا جائزہ لیں گے، جب کیسز زیر التوا ہوں ایسے خط لکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر عدالت عظمیٰ کے فضل قادر کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں جسٹس حمود الرحمان نے بڑی خوبصورت بات لکھی تھی ”یہ عدالتیں آئین کے تحت کام کر رہی ہیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ درست طور پر کام نہیں کر رہیں تو انہیں ختم کر دیں“ ان کا کہنا تھا کہ آپ کے لئے بھی جان چھڑانے کا واحد حل یہ ہے کہ عدالتیں ہی ختم کر دیں۔ سماعت کے دوران کے کے آغا کا کہنا تھا کہ عدالت اس حوالے سے تحریری حکم جاری کرے کیونکہ میرے لئے مشکل ہے اگر تحریری حکم نہیںہو گا تو چیئرمین عمل نہیں کرے گا جس کے بعد عدالت نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے تصدیق کی ہے کہ چیئرمین نے خط لکھا ہے خط میں عدالت کے دائرہ اختیار پر تحفظات ظاہر کئے گئے یہ بھی بتایا جائے کہ یہ خط میڈیا کو کیسے جاری کیا گیا ہے؟ اس موقع پر کمرہ عدالت میں موجود رینٹل پاور کیس کے درخواست گزار خواجہ آصف نے عدالت کو بتایا کہ یہ خط نیب کے میڈیا ونگ کے ذریعے میڈیا کو بھیجا گیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ادارے کے سربراہ کی اجازت کے بغیر تو کوئی اہلکار ایسا نہیں کرسکتا۔ بعدازاں فاضل عدالت نے خط کی مصدقہ نقل طلب کرتے ہوئے مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو دباﺅ میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ عدالتیں ختم کر دے۔ چیئرمین کے خط کے مندرجات اخبارات میں پڑھے ہیں عدالت دیکھے گی کہ خط کے مقاصد کیا ہیں اور یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کیا قانون کے مطابق چیئرمین نیب کو خط لکھنے کی اجازت تھی یا نہیں۔این این آئی کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ پہلے ہم وہ خط دیکھیں گے کہ اس کا مقصد کیا ہے، کہیں اس کا مقصد عدالت پر دباﺅ ڈالنا اور تنقید کرنا تو نہیں یا پھر اس کے ذریعے عدالتوں کے حوالے سے نفرت تو نہیں پھیلائی جا رہی جو شخص عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتا ہے اس پر بادی النظر میں توہین عدالت کا مقدمہ بنتا ہے۔ عدالت دیکھے گی کہ کیا چیئرمین نیب کو قانون کے مطابق خط لکھنے کی اجازت تھی یا نہیں۔ چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر جنرل سے سوال کیا کہ آپ یہ بتائیں کہ کیا چیئرمین نیب نے صدر کو کوئی خط لکھا ہے جس میں عدلیہ کے کردار پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے؟ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب کے کچھ تحفظات ہیں اور اسی لئے انہوں نے خط لکھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو عدالتوں کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم نے تین نومبر کو ایک آمر کو عدالتی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دی تو چیئرمین نیب کو کیسے دیں گے؟ عدالت عظمیٰ نے تحریری حکم دیتے ہوئے چیئرمین نیب کی جانب سے صدر مملکت کو لکھے گئے خط کی مصدقہ کاپی آج سپریم کورٹ میں جمع کروانے کی ہدایت کی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ کہا ہے کہ اس بات کی بھی نشاندہی کی جائے کہ خط کس ذریعے سے میڈیا کو پہنچایا گیا۔ عدالت نے سماعت آج تک ملتوی کر دی، اس سے قبل عدالت نے روزانہ کی بنیاد پر رینٹل پاور فیصلے پر عملدرآمد کیس کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔