اسلام آباد (نامہ نگار + ایجنسیاں) وزیر داخلہ رحمن ملک نے سینٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے، ہمیں نیٹو فورسز کی ضرورت نہیں ہے، خود اپنے ملک کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کوئی جادوگر نہیں ہوں معلومات کی بنا پر آگاہ کردیتا ہوں کہ صورتحال خراب ہو سکتی ہے، موبائل فون بند کرنے سے دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے ہیں۔ ملک اور عوام کی حفاظت کیلئے پورے عزم کیساتھ اقدامات کرتے رہیں گے۔ کراچی میں دہشتگردی کے حوالے سے بیان پر قائم ہوں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو کرنل (ر) طاہر مشہدی اور سینیٹر مصطفے کمال کے نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ اس پر متحدہ کے ارکان نے شدید تنقید کی اور طاہر مشہدی نے کہا کہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ کراچی میں ڈرون حملے ہونے والے ہیں، عوام کے اس بیان کے بعد تحفظات ہیں، وہ اپنے بیان کی وضاحت کریں تاکہ حفاظتی اقدامات کئے جا سکیں، مصطفے کمال نے کہا کہ وزیر داخلہ کا کام صرف معلومات ہی فراہم کرنا نہیں ہے ان کی معلومات پر کیا ہم نیٹو فورسز کو بلوائیں کہ وہ انہیں آ کر روکیں، وزارت داخلہ کا کام ہے کہ اس تباہی کو روکے صرف یہ کام نہیں کہ وہ بربادیوں اور تباہیوں کے انکشافات کر دے۔ رحمن ملک نے کہا کہ مجھے جو معلومات ملتی ہے وہ متعلقہ صوبائی حکومتوں کو دے دیتا ہوں جب کوئٹہ میں کہا تھا کہ ٹارگٹکلنگ بڑھے گی تو بڑھی، میں نے بلور فیملی پربھی حملوں سے آگاہی فراہم کی تھی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھیں، پاکستان میں کسی نیٹو فورس کی ضرورت نہیں ہے ہم ہینڈل کر سکتے ہیں۔ ان کیمرہ بریفنگ کی اجازت دیں، ان کیمرہ بریفنگ میں بتانا چاہتا ہوں کہ میری فورسز نے کیا اقدامات کئے، لوگوں کو 80 سے 90 ہزار روپے دیکر ایک واقعہ کروایا جاتا ہے، سینیٹر اسحقٰ ڈار نے کہا کہ ایک دن طے کر لیا جائے جب ایوان کو ان کیمرہ بریفنگ دی جائے کیونکہ رحمن ملک نے بہت اہم بات کی ہے جس پر بدھ کو ایوان کو ان کیمرہ بریفنگ دینے پر اتفاق کر لیا گیا۔ رحمن ملک نے مزید کہا کہ جب بھی موبائل سروس بند کی کراچی اور کوئٹہ میں دہشتگردی نہیں ہوئی۔ انسداد دہشتگردی بل فوری منظورکیا جائے، بل کی منظوری سے آدھی دہشتگردی ختم ہوجائے گی۔ ایجنسیوں کو کراچی میں امن و امان بہتر بنانے کا ٹاسک دیدیا، کراچی میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں کالعدم تنظیمیں ملوث ہیں۔ کراچی میں فروری میں ممکنہ دہشت گردی کی بات حساس اداروں کی اطلاعات پر کی۔ علاوہ ازیں بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کیخلاف بدھ کو جمعیت علمائے اسلام (ف) اور بی این پی نے سینٹ سے واک آﺅٹ کیا، سینیٹر عبدالغفور حیدری نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ گورنر راج کے نفاذ کے باوجود بھی بلوچستان میں بدامنی بدستور برقرار ہے، گورنر راج کا نفاذ درست اقدام نہیں ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں، بلوچستان میں گورنر راج جمہوری طریقہ نہیں ہے بلوچستان سے زیادہ بدامنی خیبر پی کے اور سندھ میں ہے۔ علاوہ ازیں مشترکہ مفادات کونسل کی 2011-12ء کی رپورٹ سینٹ میں پیش کر دی گئی۔ قائمہ کمیٹی تجارت نے تجارتی تنظیموں کی رجسٹریشن اور ریگولیشن کے بل پر رپورٹ سینٹ میں پیش کی۔ سینیٹر صابر بلوچ نے کہا ہے کہ ایوان بالا کا اجلاس بروقت شروع کرنے کے معاملے پر ہاﺅس بزنس ایڈوائزری میں بات کی جائے۔ کے ای ایس سی سے متعلق سینیٹر شاہی سید کے سوال کا جواب موصول نہ ہونے پر موخر کر دیا گیا۔ وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ ایوان بالا کی کارروائی اچھی فضا میں جاری رہنی چاہئے یہ اس ایوان کی روایت ہے جسے برقرار رکھا جانا چاہئے۔ وزیر مملکت تسنیم احمد قریشی نے کہا ہے کہ کوشش کے باوجود کے ای ایس سی حکام نے فارغ اور جبری ریٹائر کئے گئے ملازمین کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔