دیس کی مٹی ۔۔۔!

خواتین اپنے دکھوں، پریشانیوں اور مصروفیات میں اس قدر الجھی رہتی ہیں کہ انہیں امریکہ اور پاکستان کے حالات کو جاننے سے دلچسپی ہے اور نہ ضرورت۔ اگر فرصت میسر آجائے تو دل بہلانے کے لئے ٹیلی ویژن پر کوئی تفریحی پروگرام دیکھ لیتی ہیں۔ کمیونٹی میں کسی کے انتقال کی خبر مل جائے تو فاتحہ خوانی کے لئے کسی گھر یا مسجد میں جمع ہو جاتی ہیں، کچھ دیر کے لئے موت کی فکر کرتی ہیں اور پھر اپنی اپنی دنیا میں واپس لوٹ جاتی ہیں۔ امریکہ کی زندگی ایک مشین کی سی ہے، دوڑی چلی جا رہی ہے مگر دوڑتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی، یخ بستہ ہَواﺅں کی طرح جسم کو چیرتی ہوئی نکل جاتی ہے مگر نکلتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ جب سے ہماری دوست شیریں کے انتقال کی خبر ملی ہے، موت ایک بار پھر سامنے آ کھڑی ہوئی ہے۔ ویسے تو جوان اولاد کی ناگہانی موت سے بُری خبر کوئی نہیں مگر یتیم بچوں کی ماں انہیں تنہا چھوڑ جائے اس سے بھی تکلیف دہ خبر کوئی نہیں۔ شیریں ایک محنتی اور خوددار ماں تھی۔ ایک سفید پوش بیوہ تھی جس نے پردیس میں محنت مزدوری کرکے اپنی تین بیٹیوں کی شادیاں کیں، ایک لڑکا ذہنی طور پر ابنارمل ہے جبکہ دوسرا لڑکا سٹوڈنٹ ہے۔ شیریں چند روز کے لئے پاکستان گئی تھی کہ اچانک دل کا دورہ پڑا اور انتقال کر گئی۔ دونوں بیٹے پردیس میں اپنی ماں کی راہ تک رہے ہیں۔ جب بھی میرے گھر میں محفل میلادالنبی ہوتی، میری دوست شیریں میرے لئے خاص میٹھا بنا کر لایا کرتی۔ اس سال بھی محفل میلادالنبی کا اہتمام ہو گا مگر محفل میں شیریں نہیں ہو گی۔ اس کا بڑا بیٹا اپنے چھوٹے بھائی کو گلے لگا کر رو بھی نہیں سکا کہ ذہنی طور پر غیر متوازن بچہ شاید اپنی ماں کی جدائی کا قلق برداشت نہ کر سکے۔ ان کے گھر جانے کا حوصلہ کون کرے کہ پورے گھر میں ان کی ماں کا سامان بکھرا پڑا ہے اور وہ کسی کو سمیٹنے نہیں دیتے کہ ان کی ماں آئے گی اور خود سمیٹے گی۔ آج مسجد میں شیریں کے لئے فاتحہ خوانی کرائی گئی تو میں خواتین کی بڑی تعداد دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ حقیقت میں انسان کے اعمال اور اخلاق اسے زندہ رکھتے ہیں۔ دستورِ زمانہ ہے کہ تعزیت کے لئے خاندان والوں کے پاس جایا جاتا ہے یا خاندان والے ایصال ثواب کی محافل کا اہتمام کرتے ہیں۔ مگراس نیک دل خاتون کا سوائے دو یتیم لڑکوں کے اس ملک میں کوئی نہیں اس کے باوجود ایصال ثواب کے لئے مختلف مساجد اور گھروں میں محافل ہو رہی ہیں۔ وہ ایک سادہ اور غیر معروف عورت تھی مگر اللہ تعالیٰ کو اس بیوہ کا صبر، خودداری اور دین سے محبت اس قدر پسند آئی کہ ہر شخص اس کو ان الفاظ میں یاد کر رہا ہے، جس میں وہ خود یاد کئے جانے کی آرزو رکھتا ہے۔ جو لوگ اپنا تعلق مساجد اور دینی محافل کے ساتھ جوڑے رکھتے ہیں، وہ دنیا کے خواہ کسی ملک میں انتقال کر جائیں، ان کے ایصال ثواب کی محافل خود بخود سجا دی جاتی ہیں۔ انسان اس حال میں دنیا سے جائے کہ ہر دل سے اس کے لئے دعا نکلے۔ مرحومہ وطن کی مٹی میں سو رہی ہے اور اِدھر پردیس میں اس کے لئے دعائے خیر ہو رہی ہے۔ آج کالم لکھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا مگرمجھے آج بھی کالم لکھنا تھا کہ کالم نگاری میری زندگی کا واحدکتھارسس ہے۔ مسجد میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ یہ تمام خواتین مرحومہ کی فاتحہ خوانی کے بعد اپنے گھروں کو چلی جائیں گی اور معمولات زندگی میں مصروف ہو جائیں گی، مگر مجھے گھر جا کر نہ چاہتے ہوئے بھی میڈیا دیکھنا ہے۔ حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھنا ہے۔ خبریں سُننا اور تبصرے پڑھنا ہے جبکہ ایک طرف پردیس کی یخ بستہ چیرتی ہوئی زندگی اور دوسری جانب موت کی اٹل حقیقت ۔۔۔ بوجھل دل سے گھر آئی، دماغ کو بہلانے کی کوشش کرتی رہی، کالم لکھنے کے لئے بیٹھی تو رحمان ملک اور شاہ رخ خان کی خبروں نے دماغ خود بخود کھول دیا۔ رحمان ملک اور شاہ رخ خان دونوں ہی کمال کے اداکار ہیں۔ رحمان ملک نے شاہ رخ خان کی سکیورٹی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرکے مسلمان بھائی ہونے کا ثبوت دیا ہے جبکہ شاہ رخ خان نے رحمان ملک کو جہالت کا طعنہ دیا ہے کہ موصوف نے ان کا مضمون نہیں پڑھا اور بھارتی سرکار کو اپ سیٹ کر دیا۔ رحمان ملک نے بھارتی سرکار کو ”تیلی“ لگائی، بعض اوقات ”تیلی“ کام کر جاتی ہے۔ بھارتی اور پاکستانی میڈیا نے رحمان ملک کے بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا، خود شاہ رخ خان نے بھی اس بیان کو حب وطنی کے خلاف قرار دیا مگر رحمان ملک کا بیان مو¿ثر ثابت ہوا اور بھارتی سرکار نے شاہ رخ خان کی سکیورٹی بحال کر دی۔ ممبئی پولیس نے ایک ماہ پہلے سکیورٹی ہٹا دی تھی جو اب بحال کر دی گئی ہے۔ بھارت اپنے بندوں کے انداز و بیان نظر انداز نہیں کرتا۔ دوسرا شاہ رخ کراچی میں مقیم ہے اور وہ جتوئی ہے۔ شاہ زیب مرحوم کے قاتل شاہ رخ جتوئی کو بچانے کے لئے نئے نئے کھیل کھیلے جا رہے ہیں، ویسے ہی جیسے الیکشن ملتوی کرانے کے لئے مختلف ”مارچ“ کھیلے جاتے ہیں۔ بھارت کا شاہ رخ خان ہی سپرسٹار نہیں، پاکستان میں مذہب سے سیاست تک بڑے بڑے فنکار پائے جاتے ہیں۔ یہ وہ پاکستان ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے لئے ایک الگ آزاد ریاست کا حصول تھا۔ ایک ایسی سرزمین جس میں مسلمان اپنی مرضی کی حکومت قائم کر سکتے۔ اپنے مذہب پر عمل کر سکتے۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا اپنا گھر ہو ، جہاں وہ اپنی مرضی سے زندگی گزار سکے۔ اس گھر کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے بزرگوں کو بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ لاکھوں گھر اُجڑ گئے، ہزاروں بیٹیاں بے آبرو ہو گئیں، بے حساب جانیںگئیں، خون کی ندیاں بہا دی گئیں، جسموں کے ٹکڑے کر دئیے گئے، پھر کہیں جا کر ایک گھر بنا۔ میری دوست شیریں آج اسی گھر کی مٹی میں پُرسکون نیند سو رہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن