خطہ ٔ بہاولپور کو کیا سے کیا بنا دیا گیا

پندرہ جنوری کی رات کو ایک طرف بہاول کلب بہاولپور کی انتظامیہ، ممبران بہاول کلب اور مہمانوں کیساتھ کلب کی صد سالہ سادہ مگر پُر وقار تقریب منا رہی تھی تودوسری طرف میرے ذہن میں بہاولپور کے نوابوں کی اپنے عوام اور پاکستان پر کی گئی فیاضیوں اور مہربانیوں کی داستانیں ایک ایک کر کے ابھر رہی تھیں۔ ایک صدی پہلے اس وقت کے نواب آف بہاولپور نے بہاول کلب کی محل نما عمارت تعمیر کرائی اور اسکے ارد گرد مختلف کھیلوں کے سر سبز میدان مہیا کر دیے تاکہ بہاولپور کی انتظامیہ اور سول سوسائٹی کے ممبران دِن بھر کی تھکن دور کرنے کیلئے بہاول کلب کے اِن ڈور اور آئوٹ ڈور کھیلوں میں حصہ لیکر اپنے آپ کو صحتمند اور چاق و چوبند رکھ سکیں۔
ریاست بہاولپور کے طلباء کو علم سے مالا مال کرنے کیلئے گورنمنٹ کالج لاہور کے بعد پنجاب کا دوسرا بڑا صادق ایجرٹن ڈگر ی کالج قائم کیا۔سستی تعلیم کی وجہ سے دوسرے صوبوں کے مسلمان غریب طلباء اس درسگاہ سے تعلیم حاصل کرنے والی اُن نامور ہستیوں میں احمد ندیم قاسمی مرحوم جیسے دانشور ،مفکر ، شاعر اورادیب بھی شامل تھے۔الازہر یونیورسٹی کے مقابلے میں جامعہ اسلامیہ قائم کیاجو اب اسلامیہ یونیورسٹی کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ایچی سن کالج کے مقابلے میں صادق پبلک سکول قائم کیا ہندوستان بھر کے مسلم تعلیمی ادارے ایسے نہ تھے جنکی مالی معاونت نہ کرتے رہے ہُوں۔ انکے عوض بہاولپور کے طالبعلموں کے لیے فنی تعلیم کے اداروں میں سیٹیں مختص کرائیں ۔ ان میں علی گڑھ یونیورسٹی ، میکلیگن انجینئرنگ کالج اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور، ڈا ئومیڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج کراچی قابل ذکر ہیں۔کنگ ایڈورڈ کالج اور پنجاب یونیورسٹی میں ایک ایک بلاک تعمیر کرایا۔ایچی سن کالج لاہور میں مسجد تعمیر کرائی۔بہاولپور کے کئی ذہین اور ہونہار طلبہ کو انگلینڈ کی یونیورسٹیوں سے میڈیسن اور انجینئرنگ کی تعلیم کیلئے سکالر شپس دیے جاتے رہے۔ اسکے برعکس آج بہاولپور کے وہ طلباء جو بورڈ میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرتے ہیں لیکن انٹری ٹیسٹ میں فیل ہوجانے سے انجینئرنگ اور میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنے میں ناکام بنا ئے جا رہے ہیں۔اسکی اصل وجہ اکیڈمیز بھی لاہور میں اور انٹری ٹیسٹ کے پیپر بھی لاہور ہی میں تیار ہوتے ہیں۔
شاہانہ طرز تعمیر، صناعی اور کاریگری کی شاہکار صادق ریڈنگ لائبریری نواب آف بہاولپور نے تعمیر کرائی جسکے حسن و جمال کے چرچے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک پھیلے ہوئے ہیں۔ جو بھی ملکی یا غیر ملکی صاحب علم و دانش حضرات بہاولپور تشریف لاتے ہیں انکی اولین خواہش لائبریری میں محفوظ قدیم ، نادر اور نایاب کتب اور نسخوں کی زیارت کرنا ہوتی ہے۔اس خطے سے جہاں زیادتیوں کی داستانیں موجود ہیں ایک زیادتی یہ ہے کہ لائبریری کا نام تبدیل کر کے سینٹرل لائبریری رکھ دیا گیا ہے۔ مزید ظلم یہ کیا گیا ہے کہ منوت کے ذریعے بنائے گئے نقش و نگار پر سفیدی کی تہ در تہ چڑھا کر اسکی خوبصورتی کو ماند کر دیا گیا ہے۔ ٹیک وُڈ کے دروازوں پر پالش کی بجائے رنگوں کی تہ چڑھا دی گئی ہے جس سے لکڑی کا حسن ہی ختم ہو گیا ہے۔ بہاولپور کے صحرا کو گل و گلزار بنانے کیلئے ستلج ویلی پراجیکٹ میں حصہ ڈالا۔ بے زمین مسلمان کاشتکاروں کو دور دراز علاقوں سے بلا کر مالک زمین بنا کر آباد کیا۔آج ان کی اولادیں تعلیم ، صحت اور تجارت میں سر فہرست ہیں۔نواب آف بہاولپور دانشوروں، مفکروں اور شاعروں کی بہت قدر کرتے تھے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال سے ذاتی تعلق تھا۔ آپ نے انکی مالی معاونت بھی کرتے۔ ڈاکٹر محمد علامہ اقبال قصیدہ گو شاعر نہ تھے لیکن نواب آف بہاولپور کی خوبیوں نے ان کو قصیدہ لکھنے پر مجبور کیا۔اسی طرح ابو الاثر حفیظ جالندھری بھی نواب آف بہاولپور کے قریب تھے۔
پاکستان بننے سے پہلے قائد اعظم محمد علی جناح نواب آف بہاولپور کے قانونی مشیر تھے۔نواب سر صادق محمد خاںعباسی پنجم کو جنگ عظیم دوم میںبرطانیہ کی معاونت پر 55 ہزار پائونڈ کی کثیر رقم پیش کی گئی انہوں نے یہ رقم قائد اعظم محمد علی جناح کے حوالے کر دی تاکہ وہ تحریک پاکستان احسن طریقے سے چلا سکیں۔پاکستان بنتے وقت انہوں نے اپنا ملیر کراچی کا محل اور سواری کے لیے اپنی رولز رائس کارقائد اعظم کو پیش کی جس پر وہ سوار ہو کر گورنر جنرل کا حلف اٹھانے کیلئے آئے۔حلف اٹھانے کے بعد بہاولپور آرمی کے چاق وچوبند دستے نے سلامی پیش کی۔پاکستان کا خزانہ خالی تھا دو سال تک انتظامی اخراجات نواب آف بہاولپور نے اپنے خزانے سے ادا کیے۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کو کرنسی کے اجراء کیلئے 12 من سونا عطا کیا۔ پاکستان بننے سے پہلے نواب آف بہاولپور کو پنڈت جواہر لعل نہرو اور انکی بہن لکشمی پنڈت نے علیٰحدہ علیٰحدہ ملاقاتیں کیں نواب آف بہاولپور کو بلینک چیک بھی پیش کیا گیاجو انہوں نے قبول نہ کیا ۔ راجپوتانہ کی ریاستوں کے مہاراجوں کا سربراہ بنانے کی پیش کش کی گئی،چولستان کو آباد کرنے کیلئے پانی کی آفر کی گئی ۔ نواب آف بہاولپور نے جواباََ بتایا کہ ریاست کا پچھلا دروازہ بھارت کی طرف کھلتا ہے اور اگلا دروازہ پاکستان کی طرف ہم شریف لوگ اگلا دروازہ استعمال کرتے ہیں۔ اس جواب پر ہندو لیڈر شپ نے بہاولپور ریاست کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی۔نواب آف بہاولپور نے انکی باتوں کا جواب تمام ریاستوں سے پہلے پاکستان میں شمولیت کے اعلان سے دیا۔پاکستان بننے کے بعد آپ نے جمہوری نظام قائم کرنے کیلئے اپنی ریاست کے بلدیاتی انتخابات کراکر پہلے بلدیاتی اختیارات عوام کو سونپے اور 1952 ء میں عام انتخابات کراکر انتظامی امور منتخب صوبائی ادارے کو سونپ کر آپ صرف آئینی سربراہ بن گئے اور اپنے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر کر لیا جس پر وہ باقی عمر گزار گئے۔ون یونٹ کے قیام پر آپ نے حکومت پاکستان سے الحاق کا معاہدہ کیا ۔
نواب آف بہاولپور ون یونٹ ٹوٹنے سے پہلے وفات پا گئے اگر انکی زندگی میںخطہ ء بہاولپور کو پنجاب میں شامل کرنے کی سازش ہوتی تو انکے ایک اشارے پر نہ کوئی ٹرین ااور نہ ہی کوئی دوسری سواری بہاولپور سے گزرنے دی جاتی۔پنجاب میں خطہء بہاولپور کو شامل کر کے پاکستان توڑنے سے بھی بڑی خوفناک سازش کی گئی ہے پنجاب کو آبادی کا اژدھا بنا کر باقی تین صوبوں کی عوام کو پنجاب کیخلاف کھڑا کر کے پاکستان کو گوناں گوں مسائل سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ آج پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اسکی اصل وجہ پنجاب کی آبا دی کا اژدھا بننا ہے ۔ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو سب سے پہلے بہاولپور کو پنجاب سے علیٰحدہ کرنا ہو گا۔
پنجاب کی خطہ ء بہاولپور کے عوام سے کی گئی زیادتیوں کی بھی طویل داستان ہے ۔ صرف ایک زیادتی سے باقی زیادتیوں کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ، 1955 ء میں خطہ ء بہاولپور میں 330 میل لمبی پٹی پر تین اضلاع تھے 59 سال گزرنے کے باوجود آج بھی تین ہی اضلاع ہیں اسکے برعکس اصل پنجاب میں ہر تیس میل کے بعد ضلع بنایا گیا ہے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بہاولپور کے عوام کیخلاف جتنی زیادتیاں کی گئی ہیں اسکی مثال پوری دنیا میں نہیں ہے۔ خدارا پاکستان بچانے کیلئے فوری طور پر پنجاب کو اپنی اصل حدود میں لے جایا جائے ورنہ آبادی کا اژدھا پنجاب کہیں پورے پاکستان کو نہ نگل جائے ؟ صد سالہ بہاول کلب بہاولپور کی تقریب نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کردیا ۔ خطہء بہاولپور کیا تھا اور اسے کیا بنا دیا گیا‘ ایسا سلوک تو فاتحین مفتوحہ علاقے سے نہیں کرتے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...