پاکستان کے کروڑوں لوگ پٹرول کے حصول کی خاطر دربدر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ایسے پریشان حال عوام میں ہر عمر کے مردوزن شامل ہیں۔ اول تو شہروں کے اکثر پٹرول پمپ بند تھے۔ گنتی کے جو چند ایک کھلے ہوئے تھے‘ ان پر پٹرول لینے والی کاروں اور موٹرسائیکلوں کی دہری دہری اور تہری تہری لمبی قطاریں دیکھنے میں آئیں۔ ضروری نہیں کہ پانچ پانچ گھنٹے انتظار کرنے کے بعد بھی ان سبھی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو پٹرول مل جائے‘ ان میں سے نصف سے زائد مقدار ان گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی تھی پٹرول ختم ہو جانے پر انہیں بے نیل و مرام وہاں سے جانا پڑتا ہے۔ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور سندھ کے شہروں کے عوام کو پٹرول بحران کے شکنجے میں چیخ و پکار کرتے ہوئے دو ہفتے گزرنے والے ہیں۔پاکستان اور اسکے عوام پٹرول بحران سے کیونکر دوچار ہیں؟ یہ خوفناک بحران کیسے پیداہوا؟ اس کی وجوہ کیا ہیں؟ ملک و قوم کو اس بحران کے شکنجے میں جکڑنے کی ذمہ داری کن زعماء پر عائد ہوتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ارباب اقتدار اپنے عہد کے اس ریکارڈ اور سنگین بحران پر سنجیدگی سے غور کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں۔ حاکمانِ وقت کے وفاداروں میں ٹھن گئی ہے۔ کوئی بھی اس خوفناک بحران کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کوئی اعلیٰ روایت قائم کرنے میں قطعی طورپر سنجیدہ نہیں۔ حکومت کی اس اہم ترین مسئلہ کے حل کی خاطر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ اس پر غور کرنے کیلئے ایک دن کے وقفہ کے بعد اجلاس بلایا گیا۔ غالباً ہفتہ وار چھٹی کے روز اجلاس بلانا وقت کا ضیاع سمجھا گیا۔ وزیراعظم میاں نوازشریف کی زیرصدارت ہونیوالے اجلاس کے بعد وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے واشگاف الفاظ میں خود کو پٹرول کے بحران سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پٹرول کی قلت کی وجہ بدانتظامی ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں یہ کہا کہ پٹرول کے بحران کے ذریعے ہماری حکومت کیخلاف سازش ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بحران کا وزارت خزانہ کی طرف سے رقوم فراہمی کا کوئی معاملہ نہیں جبکہ وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے پٹرول بحران کا ذمہ دار وزارت خزانہ کو ٹھہرایا اور وزیراعظم کو بتایا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے بروقت ادائیگیوں میں تاخیر پر پٹرول بحران شدید ہوا۔ ان سے پوچھا گیا کہ پٹرول کا بحران پیدا کرکے کسی نے حکومت کیخلاف سازش کی ہے؟ تو شاہد خاقان عباسی کا جواب تھا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں۔باعث افسوس بات یہ ہے کہ ارباب حکومت کے ان ’’وفاداروں‘‘ میں سے کوئی بھی اس ریکارڈ سنگین ترین پٹرول بحران کی ذمہ داری قبول کرنے پر رضامند نہیں۔ ان لال بجھکڑوں کو اس حقیقت کا ادراک نہیں رہا پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ افواج پاکستان‘ ارض وطن کے سرکشی عناصر سے ’’ضرب عضب‘‘ میں برسرپیکار ہے اور دہشت گرد ملک کے اندر اور باہر عوام اور قومی عسکری قوت کیخلاف شبخون مارنے کے راستے پر گامزن ہیں۔ ان دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے پولیس‘ رینجرز اور عساکر پاکستان کے دستوں کو کسی تاخیر کے بغیر نقل و حمل کرنا ہوتی ہے۔ جب ملک میں جنگ کی صورتحال ہو تو عسکری قوت کو فوری نقل و حمل کیلئے پٹرول کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ ایسے میں ملک میں گاڑیوں کیلئے پٹرول اولین ضرورت ہوا کرتی ہے۔پاکستان کے موجودہ حالات میں پٹرول کا بحران درحقیقت ملکی سلامتی کیلئے ایک سوالیہ نشان کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بحران ارباب حکومت کیلئے لمحہ فکر ہو یا نہ ہو مگر ان کروڑوں عوام کیلئے اس لحاظ سے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے جو پاکستان کو ہر قسم کی دہشت گردی سے پاک امن و امان کا گہوارہ دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ پٹرول کے بحران نے ان سبھی کو حیران و پریشان اور بے حال کر رکھا ہے۔ تبھی تو بڑے بڑے متاثرہ شہروں میں عورتوں اور بچوں سمیت لوگ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے پٹرول کے حصول کی خاطر ہاتھوں میں پانی کی خالی بوتلیں لئے پٹرول پمپوں کے چکر لگاتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان اور عوام دشمنوں کے عزائم سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ دشمن تو انتہائی موقع کی تلاش میں ہے اور ’’وفاداروں‘‘ کی مہربانیوں سے نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ شہروں میں ہسپتالوں کی ایمبولینسوں‘ ایمرجنسی کی گاڑیوں حتیٰ کہ فائربریگیڈ کی گاڑیوں تک کیلئے پٹرول دستیاب نہیں‘ اگر خدانخواستہ دہشتگردوں کو اس قسم کے حالات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے تو اسکے نتائج کس قدر بھیانک ہونگے۔مگر اب حکومت کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے۔ کمیٹیوں کی تشکیل سے معاملے کو لٹکانے یا مصلحت سے کام لیکر وفا داران کو بچانے سے کام نہیں بنے گا۔ دہشت گردوں کی گردنیں دبوچنے میں بھی پہل ارباب اقتدار نے نہیں کی تھی۔ ’’ضرب عضب‘‘ پر لبیک کہنا پڑا تھا۔ پٹرول کا بحران کہیں ’’ضرب عضب‘‘ میں ہلکی سی بھی رکاوٹ محسوس کیاگیا تو ایسا نہ ہو کہ ’’وفاداری‘‘ کے ’’مربی‘‘ دیکھتے رہ جائیں۔یقینا حالات نازک ہیں جن کا ادراک کرتے ہوئے ارباب اقتدار کو ایسے فیصلے کرنے میں تاخیری حربے اختیار نہیں کرنے چاہئیں جو حق و انصاف کے متقاضی ہیں۔