آئی سی سی اجلاس میں چھ ماہ کی ریلیف سے صرف ڈومیسٹک کرکٹ کھیل سکیں گے
2009ءاور 2010ءکا سال پاکستان کرکٹ پر بہت ہی بھارت گذرے ہیں ان دو سالوں میں ہمارے کرکٹ کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ 2009ءمیں پاکستان کے دورہ پر سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملہ ہو گیا جس کی بنا پر انٹر نیشنل کرکٹ پاکستان پر دروازے بند ہو گئے ابھی اس غم سے قوم باہر نہیں نکل سکی تھی کہ 2010ءمیں انگلینڈ کے دورہ پر گئے تین پاکستانی کرکٹرز کا جواز اور سپاٹ فکسنگ سیکنڈل منظر عام پر آگیا۔ سابق کپتان سلمان بٹ، فاسٹ باﺅلر محمد آصف اور محمد عامر کو مجرم ثابت کر کے ان پر قومی اور بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند کر دیئے گئے سزا کے فوری بعد قومی کرکٹرز نے معافی اور سزا میں کمی کے لئے بڑی بھاگ دوڑ کی لیکن کسی فورم پر ان کی شنوائی نہ ہوئی اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم سے تین کھلاڑیوں کا ایک دم نکل جانا کسی بڑے سانحہ سے کم نہیں تھا اس ........ وقت ہی پاکستان کرکٹ بورڈ حکام کی اہم فیصلوں کو نہ سراہنا زیادتی ہوگی جنہوں نے مشکل وقت میں قومی کرکٹ ٹیم کو بکھرنے سے بچا لیا اور ایسے فیصلے کئے جس سے پاکستان کرکٹ دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی گئی۔ اس دوران پی سی بی کے تین چیئرمین بھی تبدیل ہو گئے اعجاز بٹ نے ابھی مدت مکمل کی اور گھر چلے گئے جبکہ چودھری ذکاءاشرف کو ملک میں حکومت کی تبدیلی کی وجہ سے گھر جانا پڑا گیا۔ نجم سیٹھی کو نیا چیئرمین بنایا گیا تا ہم عدالتی معاملات کی وجہ سے وہ بھی لمبا عرصہ تک پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے طور پر نہ رہ سکے تا ہم ان کے کریڈٹ میں اچھے فیصلے بھی شامل ہیں جن کی قدر کی جانی ضروری ہے نجم سیٹھی آئی سی سی کے منتخب صدر بھی ہیں نے اپنے دور میں فاسٹ باﺅلر محمد عامر جو کہ سلمان بٹ اور محمد آصف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن چکے تھے کی سزا میں نرمی کے لئے کس انٹر نیشنل کرکٹ کونسل کے پلیٹ فارم پر اٹھایا اور ممبران کو اس بات پر قائل کیا کہ اگر ایک شخص آپ کی مدد کے لئے وعدہ معاف گواہ بنتا ہے تو اسے کم از کم کچھ ریلیف ضرور ملنا چاہیے جس پر اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ اس قسم کے کیس میں ملوث کرکٹرز کے کیسوں پر نظر ثانی کرنے کے لئے قوانین کا از سر نو جائزہ لیا جائے جس پر ایک رویو کمیٹی بنائی گئی جس نے سپاٹ فکسنگ اور میچ فکسنگ میں سزا بنانے والے کھلاڑیوں کے مستقبل کے حوالے سے متعلقہ کرکٹ بورڈ کو حق دے دیا کہ وہ کسی بھی کھلاڑٰ کی گارنٹی کے ساتھ آئی سی سی انہیں کرپشن یونٹ کو سزا میں کمی کے حوالے سے درخواست دے سکتے ہیں پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محمد عامر کی سزا میں کمی کے لئے گذشتہ سال آئی سی سی کو درخواست جمع کرا دی تھی جس پر یکم جنوری 2015 ءکو شروع ہونے والے نئے ضابطہ اخلاق کے مطابق محمد عامر کو چھ ماہ کا ریلیف دیا گیا۔ یہ ریلیف ایسا نہیں تھا کہ نوجوان کھلاڑی کی فوری انٹر نیشنل کرکٹ میں واپسی ممکن ہو جائے گی انہیں چھ ماہ تک پاکستان کی طرف سے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کا ریلیف ملا ہے جبکہ انٹر نیشنل کرکت میں واپسی کے ئے انہیں پانچ سال کی سزا پوری کرنا ہوگی بد قسمتی یہ ہے کہ محمد عامر کو جس موقع پر ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی رعایت مل رہی ہے اس وقت ہمارے ہاں ڈومیسٹک کرکٹ کا سیزن اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔