ہماری قومی معیشت کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار نے کبھی بھی اسکے بارے میں سنجیدگی کیساتھ اور قومی وقار کیمطابق طویل المیعاد پالیسیاں نہیں بنائیں حالانکہ کسی بھی مہذب اور ترقی یافتہ ملک کی پالیسیوں کا بنیادی ستون انکی معیشت کی ترقی و بہتری ہی ہے کیونکہ آزاد اور خود مختار معیشت کے بغیر کوئی بھی ملک بھیک یا قرضوں کے سہارے سر اٹھا کر جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا مگر ہمارے ارباب اختیار خصوصاً میاں برادران کے رویوں میں تضادات اور دو عملی بڑی واضح نظر آتی ہے خصوصاً پاکستان کی معاشی ، اقتصادی اور منصوبہ بندی کی پالیسیوں میں اقتدار سے پہلے اور اقتدار کے بعد کے انکے روئیے انتہائی متضاد اور قطعی مختلف ہیں بقول خواجہ آصف "کوئی شرم بھی ہوتی ہے کوئی حیا بھی کوئی ہے " ۔ کیونکہ میاں نواز شریف نے 2011میںاپنے ایک لائیو انٹرویو میں اور اخباری بیانات میں واشگاف اعلان کیا تھا کہ "اگر میرا بس چلے تو میں ایسا قانون بنادوں کہ ہم تو کیا کوئی بھی دوسری حکومت قرضے نہ لے سکے اورمیں پاکستان کے قرضوں اور بھیک کا کشکول توڑ دوں گا"۔لیکن حقیقتاً ان کے عملی وزیر اعظم اور سب سے طاقتور حکومتی شخصیت محترم اسحاق ڈارنے کشکول توڑ کر سوٹ کیس اٹھالیے ہیں اور اب وہ برملا اعلان کرتے ہیں کو ن سی حکومت قرضوں کے بغیر چلتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت تک اطلاعات کیمطابق پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم 67ارب ڈالرز کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا ہے اور میڈیا کے اعدادوشمار کیمطابق صرف گذشتہ ڈھائی سالوں میں 47کھرب روپے کا بیرونی قرضہ لیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان پر بیرونی قرضے تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 67ارب ڈالرز تک پہنچ گئے ہیں ۔دوسری طرف ملکی تجارتی بینکوں سے بھی بے انتہا قرضے حاصل کئے جارہے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند دن پہلے ایک بڑے بینک کے کریڈٹ ہیڈ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ ہم پاکستان کے تاجروں وصنعتکاروں کو قرضے کیوں دیں جب حکومت مکمل گارنٹی کے ساتھ ہم سے زیادہ منافع پر قرضے لے رہی ہے ۔
جہاں تک قرضوں کا معاملہ ہے تو محترم اسحاق ڈارصاحب کی خدمت میںعرض ہے کہ وہ کسی ایک ملک کا نام بتادیں جنہوں نے عالمی بینک یا آئی ایم ایف سے قرضہ لیا ہو اور انکی معیشت آزاد یاخود مختار ہو۔ اس سلسلے میں ملائشیاء کی مثال دی جاسکتی ہے کہ جب 1997-98میں انکے ہاں معاشی بحران کی وجہ سے انکے ہاںآئی ایم ایف کے نمائندے پہنچے تو مہاتیر محمد نے ان کو شکریہ کیساتھ واپس کردیا تھا اور اب ملائشیاء معاشی طور پر جاپان کے برابر آچکا ہے ۔ اس وقت میں صرف حکومت کی نجکاری کی پالیسی کی بات کروں گا کہ جب اقتدار میں آنے سے پہلے اس موضوع پر تفصیلی بحث اورگفت وشنید ہوچکی تھی تو پھر اب ان اداروں کو کوڑیوں کے مول بیچنے کا شوق کیوں فرمایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر صحت مند معاشرے میں اور خصوصاً ہماری اسلامی تعلیمات میں ہر جگہ اعتدال کی راہ کو اپنانے پر زور دیا گیا ہے۔ اب جبکہ موجودہ حکومت حسب معمول اپنی نجکاری کی پالیسی کو اپنانے کی طرف جا رہی ہے تو ہمیں کم از کم دوسروں کے نہیں تو اپنے تجربات اور تاریخ کو دیکھ کر فیصلے کرنے چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شعبہ حکومت کے ماتحت نہیں چل سکتا اور اس کیلئے نجی شعبہ ہی اہم کردار ادا کر سکتا ہے مگر اسکے ساتھ ہر ترقی یافتہ ملک میں کچھ ادارے بنیادی طور پر حکومت کے ہی زیر نگرانی چلنے چاہیے اس لئے نجکاری کے معاملے کو بڑی سنجیدگی سے لیکر اس کو چند نا تجربہ کار اور نئے لوگوں کے ہاتھوں نہیں دینا چاہیے بلکہ ان چند اداروں کیلئے افواج پاکستان دفاعی ماہرین، چند معاشی ماہرین اور کچھ نجی شعبہ سے تعلق رکھنے والے صنعتکاروں کے نمائندہ سے جن کا کوئی بنیادی تعلق یا فائدہ ان اداروں سے نہ ہو ان کو شامل کر کے انکے مستقبل کے بارے میں سوچا جائے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خرابی اداروں میں نہیں ہوتی انکے چلانے والوں میں ہوتی ہے آج دنیا بھر میں ایئر لائنز اپنے بیٹرے میں روز بروز نئے جہاز شامل کر رہی ہیں بلکہ ایک زمانے میں PIA ہی نے سنگاپور ایئرلائن اور امارات ایئرلائن کو تربیت دی اور آج وہ دنیا کی صف اول کی ایئر لائنز میں شامل ہیں اور دنیا کے ہر روٹ پر انکے جہاز چل رہے ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ جس پی آئی اے نے اسکو تربیت دی تھی وہ 136ارب روپے کا مقروض ہے اورپی آئی اے کا قرض اسکے مکمل اثاثوں سے دگنا ہوچکا جبکہ اس کا خسارہ 30ارب روپے سالانہ سے زائدہوچکا ہے۔ جہاں تک اسٹیل مل کا تعلق ہے ذیادہ دور کی بات نہیں اتفاق سے اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک رہنما لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم خان کی سربراہی میں یہی ادارہ اپنے تمام قرضے ادا کرکے کمانے کی پوزیشن میں آگیا تھا ۔ پاکستان ریلوے جس کی ٹرینیں تقریباً بند ہوچکی تھیں گزشتہ ڈھائی سال کی خواجہ سعد رفیق کی ذاتی توجہ کیساتھ اب تباہی کی طرف سے بہتری کی طرف سفر شروع ہوچکا ہے۔
نجکاری بری چیز نہیں ہے مگر گھر کی چیزیں بیچ بیچ کر کبھی گھر سلامت نہیں رہتا تو اگراس بنیادی سوچ کو اپنا مرکز بنالیں تو میں سمجھتا ہوں کہ نجکاری بورڈ بڑے احسن طریقے سے اپنا کردار ادا کرسکتا ہے کہ ہم پہلے یہ طے کریں کہ ملکی دفاع سے متعلق کوئی ادارہ نجی شعبہ کو نہیں دیا جائے گا باقی جو کوئی چھوٹے پیداواری شعبے ہیں یا کوئی چھوٹے یونٹ ہیں انہیں بھی دیکھ بھال کر فروخت کیلئے پیش کرنا چاہیے۔ پراس وقت ہماراقومی المیہ یہ ہے پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب آئی ایم ایف کے مرد آہن بن کر پاکستان کے ہر سرکاری ادارے کو بیچنے کی یقین دہانی کراکر پاکستان برائے فروخت کا بورڈ لگاچکے ہیں اور پاکستان میں ان کو کوئی روکنے ٹوکنے والا کوئی فرد نہیں۔ پی آئی اے اور دیگر اداروں کی نجکاری فی الفور روکی جائے کیونکہ یہ وہی ادارہ ہے جو دوسرے ملک کی ائیر لائنز کو نفع بخش کاروبار کی تربیت بھی فراہم کرچکا ہے ۔ اس لئے عرض ہے کہ یہ ادارے پاکستان کی پہچان ہیں اس لئے ان کو غیر محتاط لوگوں کے ہاتھ دے کر پاکستان کی سلامتی دائو پر نہ لگائیں اور اعداد وشمار کے گورکھ دھندوں کو استعمال کرکے پاکستان کی دفاعی شہ رگ کو ختم کرنے کی گھنائونی منصوبہ بندیوں کو بند کریں۔