(نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ایک خصوصی اجلاس میں کی جانے والی تقریر)
معزز حاضرین! نہ تو آپ حضرات سے میرا علم زیادہ ہے اور نہ ہی میرا تجربہ۔ اس کے باوجود ایک فریضہ میرے سپرد کیا گیا ہے۔ اس لئے میَں چند الفاظ آپ سب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔سب سے پہلے اس کمرے کی مناسبت سے جس میں مجھے کئی بار آنے کا موقعہ ملا۔ مجھے یہاں سے جناب ِ مجید نظامی صاحب کی محبتیں اور شفقتیں ملیں۔ یہ اتفاق ہے کہ میَں اسی کمرے میں اسی کرسی پر جناب مجید نظامی صاحب کے ساتھ کئی بار بیٹھا ہوں۔ وہ ہمیشہ یہاں تشریف رکھتے تھے۔ میں دور جا کر بیٹھتا تھا وہ مجھے ہمیشہ اپنے پاس بلا کر بٹھایا کرتے تھے۔ یہ ان کی شفقت اور میرے ساتھ ان کا پیار تھا۔ مجھے زندگی میں گیارہ سال ان کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا۔ جس میں میَںنے بطور ڈپٹی ایڈیٹر اور میگزین ایڈیٹر اور پانچ سال تک نوائے وقت کراچی کے لئے بطور ریذ یڈنٹ ایڈیٹر کام کیا۔ میَں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ آج میَں اپنی گفتگو کا آغازکرنے سے پہلے اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ایک واقعہ صرف نظامی صاحب کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے اور اس کمرے میں ان کی خوشبو کو مزید محسوس کرنے کے لئے اور احساس کو بیدار کرنے کے لئے بیان کرتا ہوں۔ بلکہ میری گزارش ہوگی اپنے چھوٹے بھائی شاہدرشید سے کہ وہ یہاں جو بھی پروگرام کروائیںاس میں جن لوگوں نے مجید نظامی صاحب کے ساتھ وقت گزارا ہے۔کم ازکم ان سے آپ یہ ضرور درخواست کیا کریں کہ وہ مجید نظامی صاحب کا کوئی ایک واقعہ یا ان کے حوالے سے یاد کا تذکرہ کیا کریں۔یوں آپ کے پاس رفتہ رفتہ بہت ساری چیزیں جمع ہو جائیں گی اور آپ انہیں کتابی شکل میںشائع کر سکیں گے۔ میرا یہ آپ کو مشورہ ہے۔
جب میں نوائے وقت کراچی میں ریذنڈنٹ ایڈیٹر تھا۔ وہاں دفتر کے اوپر ہی میری رہائش تھی کیونکہ میری فیملی یہاں لاہور میں مقیم تھی۔اس طرح میَں چوبیس گھنٹے دفتر میں رہتا تھا۔ ایک دن میرے رپورٹرز اور فوٹو گرافرز میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے آکر بتایا کہ آج ایک عجیب واقعہ ہوا ہے۔ جنرل ضیاءالحق کی حکومت ہے وہ صدر پاکستان بھی ہیں اور چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بھی ہیں۔ ان کا بنایا ہوا ایک گورنرجس کا نام ایس ایم عباسی تھا۔جس کا تعلق بہاولپور کے شاہی خاندان سے تھا۔ آج گورنر ہا¶س سندھ سے ایک جلوس نکالا گیا ہے اور اس جلوس میں آگے آگے گورنر صاحب کی بیگم صاحبہ یاسمین عباسی وہ ایک بینر ہاتھ میں لئے چل رہی ہے۔ فوٹو گرافر نے کہا کہ سر میَں یہ تصویریں لے کر آپ کے پاس آیا ہوں۔ گورنر ہا¶س سے نکلنے والے جلوس کی قیادت بیگم یاسمین عباسی کر رہی ہیں اور بینر پر لکھا ہوا ہے کہ ”بے نظیر کو رہا کرو“
یہ ایک نہایت دلچسپ بات تھی کہ جن کی حکومت تھی ان کی ہی مخالف پارٹی کی لیڈر (بے نظیر) جو کہ گھر میں نظربند تھیں۔ ان کے لئے جلو س بھی گورنر ہا¶س سے نکل رہا ہے۔اس زمانے میںپاکستان ٹیلی ویڑن کے سوا کوئی ٹی وی چینل نہیں تھا میرا خیال ہے اگر تب پرائیویٹ چینلز ہوتے تو سب ہی اس جلوس کی کوریج دکھاتے۔ میَں نے کہا کہ آپ خبر بنا دیں۔ کوئی بھی ایسی خبر جو کہ حساس نوعیت کی ہو اس کی اجازت ہمیشہ چیف ایڈیٹر سے ہی لی جاتی ہے۔جب خبر بن کر آگئی اور تصاویر بھی میری ٹیبل پر آگئیں۔ وہ تصاویر فوٹو گرافر نے اس سٹائل سے بنائی تھیں۔ تصویر میں گورنر ہا¶س کا گول دائرے میںبورڈ بھی نظر آرہا تھا اور اس بورڈ کے نیچے سے محترمہ یاسمین عباسی جلوس کی قیادت کرتی ہوئی باہر آرہی تھیں۔ ان کے ساتھ دیگر کچھ خواتین نے بینرز اٹھائے ہوئے تھے جن پر بے نظیر کو رہا کرو کی عبارت تحریر تھی۔
میَں نے محترم مجید نظامی صاحب کو کال کی اور یہ سارا واقعہ بتایا اور کہا کہ سرچونکہ مارشل لاءکا دور ہے اس لئے میرا یہ اندازہ ہے کہ حکومت اس خبر کو رکوانے کی پوری کوشش کرے گی۔ مجید نظامی صاحب نے مجھے کہا کہ ابھی آپ کے پاس کوئی خبر رکوانے کے لئے آیا تونہیں....؟ میَں نے انہیں بتایا کہ جی ابھی تک تو کوئی نہیںآیا ہے۔ مجید صاحب کا ری ایکشن یہ تھا کہ اگر کوئی آئے تو انہیں یہ بتائیں کہ ”اسی اے ضرور چھاپاں گے“۔ میَں نے کہا کہ جی سر بالکل ٹھیک۔ اس کے بعد شام ہو گئی اور بات آئی گئی ہو گی۔ ان دنوں مجید نظامی صاحب کی طبیعت خراب رہتی تھی۔ ڈاکٹر کی ہدایت پر وہ رات کو آٹھ بجے کے بعد فون ریسیو نہیں کرتے تھے اور اس کے بعد ان سے بات نہیں ہو سکتی تھی۔ نظامی صاحب چونکہ مجھے اس خبر کے حوالے سے یہ کہہ چکے تھے کہ ہم اس خبر کو شائع کریں گے۔ اس حکم کے تحت میَں نے اس کی سرخیاں نکلوائیں، تصاویر کو سیٹ کروایا اور کہا کہ اس کو فرنٹ پیج پر چھاپیںگے۔ رات کو تقریباً سوا آٹھ بجے کے قریب میرے دفتر پر یلغار شروع ہوئی۔ سب سے پہلے انفارمیشن والے آئے، احد یوسف صاحب جو کہ حیدر آباد کے رہنے والے تھے۔ وہ اس وقت صوبائی وزیر اطلاعات ہوا کرتے تھے۔ انور مقصود صاحب کے بڑے بھائی وہ سیکرٹری اطلاعات تھے وہ آئے اس کے بعد پھر کچھ فوجی آفیسرز آئے اور اس کے بعد ہوم سیکرٹری صاحب، یوںرات بارہ بجے تک میرے کمرے میں تقریباً گیارہ بارہ افراد آکر جمع ہوگئے اور انہوں نے باری باری مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم نے کراچی کے تمام اخبارات والوں کو منا لیا ہے۔ انہیں قائل کر لیا ہے ان کے ایڈیٹرز کو تیار کر لیا ہے۔ لہٰذا کوئی اخبار یہ خبر اور تصویر نہیں شائع کر رہا ہے۔ کیونکہ یہ خبر ہمارے لئے اور گورنر صاحب کے لئے بہت شرمندگی کا باعث ہو گی، اس لئے مہربانی فرما کر آپ بھی اس خبر کو روک دیں۔ میَں نے ان سب لوگوں سے کہا کہ میں ایک بار پھر نظامی صاحب سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میَں تو ایک ڈسپلن والا آدمی ہوں۔ میَں تو صرف ایک کارکن ہوں۔ جو میرا چیف ایڈیٹر کہے گا میَں تو اس کے مطابق ہی کام کروں گا۔ ہم بار بار کوشش کرتے رہے مگر نظامی صاحب سے بات نہیں ہوسکی۔ میَں نے اپنے طورپر دو تین بار کوشش کی تو مجھے نظامی صاحب کے گھر سے اطلاع ملی نظامی صاحب آرام کے لئے جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہم انہیںرات آٹھ بجے کے بعد کوئی ٹیلی فون کال نہیں دیتے ہیں۔ میَں نے معذرت بھی کی اور کہا کہ یہ میری مجبوری ہے تو مجھے یہ کہا گیا کہ آپ اپنے طور پر فیصلہ کر لیں۔ میَں نے کہا کہ میَں خود سے کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتا ہوں۔ پوری حکومت کے لوگ وہاں آئے بیٹھے تھے میَں نے ان کی بات نہ مانی۔جب یہ حربہ ناکام ہوگیا تو پھر انہوں نے مجھے دھمکانے کی کوشش شروع کردی۔ میَں نے انہیں کہا کہ میں زمانہ طالب علمی سے لے کر اب تک بہت بار جیلوں میں جا چکا ہوں۔ اور بہت بار عدالتوں میںپیش ہوچکا ہوں۔ میَں بہت سارے مقدموں کو بھی فیس کر چکا ہوں۔ لہٰذا آپ کی بڑی مہربانی ہوگی کہ آپ اس قسم کی دھمکانے والی باتیں میرے ساتھ نہ کریں۔ میَں آپ کو مشورہ دے سکتا ہوں کہ لاہو رمیں پی آئی ڈی، انفارمیشن والوں سے کہیں کہ کوئی دو بندے مجید نظامی صاحب کے گھر چلے جائیں اور جا کر درخواست کریں کہ بہت ضروری بات ہے۔ اگر وہ ان کی بات سن کر مجھے فون پر روک دیں گے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر انہوں نے خود مجھے ٹیلی فون پر اس خبر کو روکنے کا حکم نہ دیا تو پھر آپ اس سے بھی بڑی کوئی فورس لے آئیں، بے شک پولیس لے آئیں یا فوج لے آئیں۔ میَںبالکل اس کو چھاپوں گا اور یہ صبح چھپے گی۔ لاہور میں فین روڈ پر دفتر ہوتا تھاپی آئی ڈی کا ،محمود قصوری کے گھر کے بالکل ساتھ ہی۔وہاں سے وہ لوگ مجید نظامی صاحب کے گھر گئے انہوں نے چوکیداروں کی بہت منت سماجت بھی کی مگر ان کا نظامی صاحب سے کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔ اس وقت انہوں نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا۔ جنرل مجیب الرحمن صاحب سیکرٹری انفارمیشن تھے۔ انہوں نے مجھ سے بات کی کہ” اسی آپے سویرے نظامی صاحب دے نال گل کر لواں گے اور سانوں پتہ وے کہ او اساڈی گل من لیں گے، پر ایس ویلے تسی مہربانی کرو تے ضد نہ کرو۔ اور تسی ایوی ویکھوکہ تسی ملازم ہیگے او،اسی جدو نظامی صاحب دے نال گل کیتی تے او جناب نوں کنوں پھڑ کے باہر وی کڈ دین گے“ ہم خود نظامی صاحب سے بات کر لیں گے ہمیں معلوم ہے کہ وہ ہماری بات مان لیں گے مگر اس وقت آپ مہربانی فرمائیں اور ضد نہ کریں۔ اور آپ یہاں صرف ملازم ہیں اگر ہم نے صبح مجید نظامی صاحب سے بات کی تو وہ آپ کو کان سے پکڑ کر ملازمت سے باہر نکال دیں گے۔)
آگے چل کر میں نے عرض کیا:
میَں نے کہا کہ ٹھیک ہے یہ ان کی مرضی ہے۔ لیکن مجھے انہوں نے آخری آرڈر شام چار بج کر کچھ منٹ پر دیا تھا۔ اور یہ کہا تھا کہ اس کو شائع کر دیں۔ لہٰذا میَں اس خبر کو نہیں روک سکتا۔ اس کے کوئی آدھے گھنٹے کے بعد مجھے راجہ ظفر الحق کا فون آگیا جو کہ آج کل بھی ماشاءاللہ سیاست میں اِن ہیں۔ تب یہ وزیر اطلاعات ہوا کرتے تھے۔ میرے ان کے ساتھ تب بھی بڑے اچھے تعلقات تھے اور اب بھی میَں ان کی بڑی عزت کرتا ہوں۔ میرے ان کے ساتھ بہت ذاتی تعلقات بھی تھے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ راجہ ظفرالحق سیاست میںآنے سے پہلے نوائے وقت ہی کے راولپنڈی، اسلام آباد ایڈیشن کے لیگل ایڈوائزر تھے۔ ہم پر جو مقدمات ہوا کرتے تھے ان میں ہماری طرف سے راجہ ظفر الحق ہی پیش ہوا کرتے تھے۔ میں نے انہیں ساری روداد بیان کی۔ انہوں نے مجھے یہ کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ اب صدر آکر آپ کو کہیں....، میَں نے کہا کہ میری جنرل ضیاءالحق کے ساتھ بڑی اچھی سلا م دعا ہے۔ عرض یہ ہے کہ اگر وہ بھی کہیں گے تو میَں نہیں مانوں گا اور اسے صبح ضرور چھاپوں گا۔ اس کے بعد جنرل مجیب الرحمن صاحب نے فون پر کہا کہ ضیا شاہد صاحب! ہم یہ اخبار باہر نہیں جانے دیں گے۔ آپ بے شک اس کو چھاپ لیں۔ ہم باہر پولیس کھڑی کر دیں گے اور ایک کاپی بھی پریس سے باہر نہیں جانے دی جائے گی۔ میَں نے انہیں کہا کہ وہ آپ کی مرضی ہے لیکن مجھے اس کو شائع کرنا ہے کیونکہ میرے پاس آخری آرڈر اس کو شائع کرنے کا ہی ہے اور میرے چیف ایڈیٹر نے جو کہا ہے میں اسی پر عمل کروں گا۔ اگرچہ اس کے بعد جنرل مجیب الرحمن صاحب ہمارے بہت اچھے دوست بھی بن گئے۔ لیکن اس وقت بہت جاہ و جلال میں تھے۔ وہ اس وقت فوج کے حاضر سروس جنرل تھے اور سیکرٹری انفارمیشن بھی تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ضیا صاحب ”فیر میَں تینوں کل جوا ب دیواں گا“ ّ(میَں اب کل آپ کو اس کا جواب دوں گا۔) میَں نے کہا ٹھیک ہے جناب ! آپ زیادہ سے زیادہ مجید نظامی صاحب کو کہہ کے مجھے نوکری سے نکلوا دیں گے۔ جنابِ عالی میَں یہاں تو پیدا نہیں ہوا تھا اور تعلیم بھی میَں نے کہیں اور سے حاصل کی تھی۔ سات سال تک میَں ا±ردو ڈائجسٹ میں بھی کام کرتا رہاہوں۔ کل اگر مجھے یہاں سے فارغ کر دیا جائے گا تو میَں کہیں اور جا کے نوکری کر لوں گا۔ فی الحال جو مجھے مجید نظامی صاحب نے کہا ہے میَں وہی کروں گا۔ آپ بے شک اس سے بھی زیادہ مجھے دھمکیاں دے لیں۔ میَں نے انہیں کہا کہ میَں جنرل ضیاءالحق کا ملازم تو نہیں ہوں۔ میَں تو یہاں مجید نظامی صاحب کے اخبار کا ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہوں۔ پھر آخری الفاظ ان کے یہ تھے جو کہ میَں آج بڑے احترام کے ساتھ عرض کرتا ہوں۔ میَں ان کی آج بھی بڑی عزت کرتا ہوں کیونکہ وہ جنرل بھی تھے اور حکومت بھی ان کے پاس تھی۔ انہوں نے کہا ”جا فیر دفع ہو جا“ (انہوں نے کہا کہ جا¶ پھر دفع ہو جا¶)
میَں نے جواب میں کہا کہ آپ بھی ہو۔ آج نہیں تو کل آپ دفع ہو ہی جائیں گے۔ ہم نے تو ادھر ہی رہنا کیونکہ ہم تو اخبار نویس ہیں۔ ہم آج اس اخبار میں نہیں تو کسی اور اخبار میں ہوں گے اور اگر آپ مجھے ایک گالی دیں گے تو میَں آپ کو دس گالیاں دوںگا۔ اس کے بعد پھر فون بند ہو گیا۔ میں نے اس پر مجید نظامی صاحب سے کہا کہ جنرل صاحب غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں دفع ہو جا¶ کے الفاظ پہلے انہوں نے استعمال کئے تھے جس کا میں نے جواب دیا اور میں جنرل صاحب کا نہیں نوائے وقت کا کارکن ہوں اور میرا فرض ہے کہ اپنے چیف ایڈیٹر کی بات مانوں۔ باہر پولیس نے آکر چاروں طرف سے ہمارے دفتر کو گھیر لیا، یہ دفتر قائداعظم کے مزار کے بالکل سامنے ہوا کرتا تھا۔ بہرحال میَں نے اپنی نگرانی میں اخبار چھپوایا۔ کیونکہ پریس ہمارے دفتر کی بلڈنگ کے اندر ہی تھا۔ پولیس اسی طرح ساری رات کھڑی رہی۔ پہلے انہوںنے ہمارے ایجنٹ کو منع کیا کہ آپ اخبار نہ اٹھائیں وہ نہ رُکا۔ میَں نے ایجنٹ کو کہا کہ اگر یہ آپ سے زبردستی کریں تو کوئی بات نہیں، ہم ان کے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر یہ آپ کے ہاتھوں سے اخبار نہ چھینیں تو آپ اخبار گاڑیوں میں لوڈ کر کے جا کر تقسیم کروا دیں۔ میرا یہ خیال تھا کہ گورنر ہا¶س سے نکالے گئے جلوس کی تصویر کوئی اور اخبار نہیں شائع کرے گا اس لئے آج ہمارا اخبار زیادہ سیل ہوگا۔ اس سوچ کے تحت میَں نے پرنٹ آرڈ رمیں بھی اضافہ کیا تھا۔ صبح اخبار چھپ گیا اور تقسیم بھی ہوگیا۔وہ لوگ اس کو نہ رکوا سکے۔ سچی بات ہے کہ میرا اس میں کوئی رول نہیں اور نہ ہی میرا اس میں کوئی کمال ہے۔ درحقیقت مجید نظامی صاحب کی شخصیت ایسی تھی کہ نہ جنرل ضیاءالحق ان سے بات کرسکتے تھے نہ ظفر الحق صاحب کرسکتے تھے۔سب ان سے ایک اعتبار سے میَں جو سمجھتاہوں کہ خوفزدہ تھے۔ اگلے دن دوپہر د و بجے ہمارے دفتر میں مجلس جمی۔ میَں اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجید نظامی صاحب کے مدارج میں اور اضافہ کرے۔ میں نے اتنا بہادر اور جرا¿ت مند آدمی اپنی صحافت کی دنیا میں کم از کم نہیں دیکھا۔ میَںسترہ سال کی عمر میں صحافت میں آیا تھا اور مجھے 51سال اس شعبہ میں مکمل ہوگئے ہیں۔ جب میرے ہی کمرے میں میٹنگ ہوئی تو ان سب نے ایک ایک شخص نے میری شکایتیں کیں۔ جنرل مجیب الرحمن اور راجہ ظفر الحق سب نے کہا کہ ہم نے کہا بھی تھا کہ ہم کل مجید نظامی صاحب سے بات کرلیں گے۔ مگر ضیا شاہد نہیں مانا، مجید نظامی صاحب نے منہ سے ایک لفظ بھی نہ کہااور ان سب کی سن کرپھر آخر میں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ضیا صاحب آپ کو کچھ کہنا ہے؟ میَں نے کہا کہ سر میَں نے تو آپ سے پوچھا تھا، آپ نے مجھے اجازت دی تھی۔ میَں نے وہی کیا جو آپ نے مجھے حکم دیا تھا۔ یہ معمولی سی بات تھی اگر یہ مجھے لے جاتے اور لے جا کر حوالات میںبند کر دیتے تو میرے لئے وہ بھی کوئی مسئلہ نہیں تھاکیونکہ میَں نے تو بڑی حوالاتیں دیکھی ہوئی ہیں۔ جناب میَں نے تو آپ کے حکم کی تعمیل کی ہے۔ لیکن میری اپنی رائے بھی یہ ہے کہ اس کو چھپنا چاہئے۔ میری اس بات پر مجید نظامی صاحب نے مسکرا کر راجہ ظفرالحق اور جنرل مجیب الرحمنٰ صاحب کی طرف دیکھا اور کہاکہ میری جنرل ضیاءالحق صاحب سے ٹیلی فون پر بات کروا دو۔ اس وقت موبائل فون نہیں ہوتے تھے۔ لینڈ لائن کے ذریعے پانچ منٹ کے بعد رابطہ ہو گیا۔ مجید نظامی صاحب نے جنرل ضیاءالحق صاحب سے سلام دُعا کے بعد کہا کہ میَں یہاں کراچی آیا ہوا ہوں ”تینوں پتہ لگ گیا ہووے گا کہ ایتھے کِیہہ ہویاوے؟“ (آپ کو معلوم ہوگیا ہو کہ یہاں کیا ہوا ہے۔) جنرل ضیاءالحق نے کہا۔ ہاں‘ نظامی صاحب نے کہا کہ میرا ایڈیٹر میرے پاس بیٹھا ہوا ہے اس سے میَں نے ساری بات سنی ہے؟ (ایدے کولوں میَں ساری گل سنی لیئی وے، اینے میرے کولوں پ±چھیا سی، تے میَں اینوں ایس لئی اجازت دیتی سی کہ جنرل صاحب جے تہاڈے گورنر کولوں اپنی بیوی قابو دے وچ نہیں آندی تے تسی پاکستان کس طرح چلا¶ گے“)۔ اس نے پوچھا تھا اور میَں نے اس کو اس لئے اجازت دی تھی۔ جنرل صاحب اگر آپ کے گورنر سے اپنی بیوی ہی کنٹرول نہیںہو پاتی ہے تو پھر آپ پاکستان کس طرح چلا پائیں گے؟)
یہ ایک چھوٹا سا واقعہ مجید نظامی صاحب کے حوالہ سے میَں نے یہاں موجود آپ سب لوگوں کے ساتھ شیئر کیا ہے۔میری اس ادارے سے بھی گزارش ہے کہ جب کبھی یہاں کوئی پروگرام ہوا کرے تو مجھے ضرور اطلاع دیا کریں کیونکہ میَں نے زندگی کے بہت سے شب و روز نظامی صاحب کے ساتھ گزارے ہیں۔ مجھے ان کے اتنے واقعات یاد ہیں کہ ان پر پوری ایک کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، غصے میں، پیار میں، زندگی کے ہر شعبہ کے حوالہ سے مجید نظامی صاحب کیا سوچتے تھے؟ میَں پوری دیانت داری کے ساتھ بیان کر سکتا ہوں۔ (جاری ہے)
(بشکریہ ضیاءشاہد صاحب)