ہم کس طوفان کی جانب بڑھ رہے ہیں؟

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں بے پناہ قربانیوں کے عوض نمایاں کامیابیاں حاصل کر چکی ہے۔ دہشت گردی اور کرپشن کے مابین گٹھ جوڑ کے حوالے سے فوجی سپہ سالار کی جانب سے واضح اور بارہا اشاروں کے باوجود سیاسی حکمران اپریشن فورسز کو مطلوبہ فری ہینڈ دینے سے قاصر رہے تاہم جذبہء حب الوطنی سے سرشار فوج نے مجموعی طور پر نہ صرف کراچی میں بلکہ پورے ملک میںصورتحال کو بہتر کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے اور اب جنرل قمر باجوہ کی قیادت میں کر رہی ہے وہ نہ صرف اطمینان بخش ہے بلکہ لائق تحسین بھی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ ملک میں امن و امان کو لاحق متعدد دیگر خطرات کا قلع قمع کرنے کیلئے ضروری اقدامات کے حوالے سے جو آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں سیاسی حکومت پر عائد ہوتی ہیں وہ کس نے پوری کرنی ہیں۔ اگر پولیس اپنی قانونی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر کے حکمرانوں کی جائزو ناجائز خواہشات پوری کرنے تک محدود ہو چکی ہواور عام شہری کی زندگی اور عزت تک محفوظ نہ ہو، چھوٹے موٹے پولیس افسر کی خواہش پوری نہ کرنے پر سی این جی اسٹیشن کے منیجر تک اپنے دفتر میں چھترول سے محفوظ نہ ہوں، بال بچوں کیلئے رزق حلال کی تلاش میں سرگرداں رکشہ ڈرائیور سر عام سڑکوں پر پولیس تشدد کا نشانہ بننے پر مجبور ہوں،ملک میں ماڈل ٹائون اور سیالکوٹ جیل جیسے واقعات ہو رہے ہوں اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو، واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل سیالکوٹ جیل میں چار بے گناہ جج پولیس کی گولیوں سے شہید ہوئے ۔ سیالکوٹ میں ہی دو بھائی پولیس کی موجودگی میں قتل ہوئے ۔ بے شمار افسوسناک واقعات روز مرہ کا معمول ہیں ۔اسے حکومتوں کی نااہلی سمجھا جائے یا عوام کی کمزوری ۔ وجہ کچھ بھی ہو یہ واضح ہے کہ امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہیں حالانکہ امن و امان کا قیام حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔صحت کے شعبے کی بات کی جائے تواس میں کوئی دو آراء نہیں کہ پرائیویٹ ہسپتالوں کے بھاری اخراجات تو پہلے ہی عوام کی دسترس سے باہر ہیں اور اشرافیہ کے ہسپتال ویسے ہی یورپ امریکہ میں ہیں۔انہیں ملک کے اندر صحت کے شعبے پر توجہ مرکوز کرنے اور وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ ضرورت تو عوام کو ہے اور عوام کی کسی کو ضرورت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہسپتالوں میں جعلی دوائیوں کے دھندے کی کوئی روک تھام نہیں۔ دل کے مریضوں سے لاکھوں روپے بٹورنے کے باوجود جعلی سٹنٹ تک ڈالے جارہے ہیں۔ سنگین صورتحال کے پیش نظر اب سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیا ہے۔ ڈاکٹروں سمیت عملے اور مریضوں کی لڑائیاں روز مرہ کا معمول بن چکی ہیں حتیٰ کہ ڈاکٹروں کے ہاتھوں مریضوں کی ٹھکائی اور ہسپتال پہنچ کر ہسپتال انتظامیہ کی بے رخی سے مریضوں کے فرش پر پڑے پڑے ڈاکٹروں کے انتظار میں مرنے کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیںمگر جو دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹروں کیلئے بیش قیمت تحائف، پر تعیش دعوتوں اور دنیا کی سیر و سیاحت جیسی پیشکشوں کے عوض جعلی مگر مہنگی دوائیاں بھی مریضوں کیلئے تجویز کرواتی ہیں وہ حکومتی رٹ کے حوالے سے اس حد تک بے خوف ہیں کہ جعلی دوائوں کی فروخت کو یقینی بنانے کے لئے شراب و کباب کی محفلیں تک سجانے کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔اگر عدلیہ اور بار کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں فیصلے میں غیر معمولی تاخیر ایک تکلیف دہ فیکٹر ہے ۔ایک فریق جلد فیصلہ چاہتا ہے تو دوسرا اس کو لٹکانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے۔اور کیس کو لٹکانے کیلئے ہمارا پروسیجرل لاء متعدد راستے فراہم کرتا ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جو اکثرو بیشتر بلکہ آئے روز جج اور وکیل کے درمیان تلخی یا تصادم کا باعث بنتا ہے ۔ اور یہ صورتحال انتہائی خطرناک رنگ اختیار کرتی جارہی ہے مگر حکومت اور قانون ساز اداروں کی اس صورتحال سے چشم پوشی ناقابل فہم ہے۔اگر بر وقت پروسیجرل اور ریگو لیٹری اصلاحات ہو جاتیں تو مقدمات کے فیصلوں میں نہ صرف بلا جواز تاخیر سے بچا جا سکتا تھا بلکہ بنچ اور بار کے اراکین میں آئے روز جنم لینے والی تلخیوں سے بھی نجات ملنے کی امید پیدا ہو سکتی تھی۔ عدالتوں میں وکلاء کی آپس کی لڑایاں اور ججوں سے جھگڑے روز کا معمول ہے۔ مگر حکومت کے پاس ان کاموں کیلئے وقت نہیں اور پارلیمان حکومت کے تابع ہونے کی وجہ سے کچھ کر نہیں سکتی۔ اشیائے خوردو نوش کی بات کی جائے تو مضر صحت اجزاء کی ملاوٹ کے بغیر کوئی چیز ڈھونڈنا مشکل ہے بکرے کی جگہ گدھے کا گوشت تک فروخت ہواء ہے مگر کوئی کیفر کردار تک نہیں پہنچا۔ایک اندازے کے مطابق لاہور میں پچیس سے تیس لاکھ لٹر بھینس کا دودھ پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ یہاں چالیس سے پنتالیس لاکھ لٹر دودھ فروخت ہوتا ہے۔یہ باقی دودھ کہاں سے آتا ہے اس پر حکومت کوئی خاطر خواہ اقدام کرنے میں ناکام ہے اور ہم روزانہ دودھ سمجھ کر کیا پی رہے ہیں کچھ پتہ نہیں۔ یہ خبریں میڈیا پر آچکی ہیں کہ بال صفاء پوڈر سمیت مختلف کیمیکلز کی ملاوٹ سے دودھ بنایا جارہا ہے۔ فوڈ کنٹرول اتھارٹی سمیت جہاں کہیں کوئی افسر دیانتداری اور غیر جانبداری سے فرائض منصبی ادا کرنے کے شوق میں کسی مگر مچھ کو ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے سبق سکھانے کیلئے لمبے خفیہ ہاتھوں کے ساتھ مافیا حرکت میں آتا ہے یہاں تک کہ اسے اپنی جان کے لالے پڑ سکتے ہیں ۔
پولیس کی شہریوں سے بد سلوکی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ آئے دن لاہور جیسے شہر کی سڑکوں پرنہتے پرامن شہری تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پولیس سے دست و گریبان ہو رہے ہیں۔ سیاستدانوں میں کرپشن کے علاوہ ہٹ دھرمی کا عنصر غالب ہے حتیٰ کہ اب یہ ٹی وی چینلوں کے بعد پارلیمان میں بھی دست و گریبان ہیں۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں اور’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ،، کا راج ہے مگر حکمران بعض فیتے کاٹ کر ہی گورننس جیسی اہم ذمہ داریوں سے خود کو فارغ سمجھ بیٹھے ہیں ۔لگتا ہے وژن ہی نہیں کہ عوام کی یہ تکالیف اور کرپشن کے علاوہ انتہاء کی ہٹ دھرمی وہ سلگتی چنگاری ہے جو کسی وقت بھی شعلوں میں بدل سکتی ہے۔ عاقبت نا اندیشی کا عالم تو یہ ہے کہ ہم اس حد تک ذاتی مفاد اور ذاتی اناء کے حصار میں ہیں کہ ہمیں ذرا فکر نہیں کہ اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے ہم کس طوفان کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن