اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانامہ پیپرز لیکس کیس میں وزیراعظم محمد نوازشریف کے وکیل نے شریف فیملی کی وراثتی جائیداد کی تقسیم جبکہ نیب نے حدیبیہ پیپرز کیس میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے بیان سمیت مکمل ریکارڈ عدالت میں جمع کرا دیا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو نیب نے اسحاق ڈار کی معافی سے متعلق ریکارڈ عدالت میں جمع کرا دیا۔ عدالت کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے بتایا وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی نااہلی کیلئے دائر درخواست اور انٹرا کورٹ اپیلیں لاہور ہائیکورٹ نے خارج کی تھیں، جبکہ نواز شریف اور دیگر کے خلاف ریفرنس خارج کرنے کا معاملہ پہلے ہی رپورٹ کیا جا چکا ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان سے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ کے فیصلہ میں ریفرنس کو خارج اور تفتیش نہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا تو فاضل وکیل نے بتایا دوبارہ تفتیش کے معاملے پر 2رکنی بینچ میں اختلاف کے باعث فیصلہ ریفری جج نے سنایا تھا جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا منی لانڈرنگ کیس میں ریفری جج کو اپنی رائے پر فیصلہ دینا تھا عدالت پراسیکیوٹر جنرل نیب سے پوچھے گی کیا اسحاق ڈار کو مکمل معافی دی گئی ، اور کیا اسحاق ڈار نے چیئرمین نیب کو معافی کی تحریری درخواست خود دی تھی اور کیا معافی کے بعد اسحاق ڈار ملزم نہیں رہے، جس پر شاہد حامد نے جواب دیا ریفری جج نے دوبارہ تحقیقات کیلئے نیب کی جانب سے دائردرخواست خارج کردی تھی اور عدالتی فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا اور اب عدالتی فیصلے کےخلاف اپیل دائرکرنے کا وقت ختم ہو چکا ہے اسحاق ڈار کیخلاف منی لانڈرنگ کیس ختم ہو گیا ہے یہ 25سال پرانا معاملہ ہے اب ان کو صرف الزامات کی بنیاد پر نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا ان کا مزید کہنا تھا کہ جب میرے موکل پر منی لانڈرنگ کیس کا الزام لگایا گیا تھا اس وقت اسحاق ڈار کے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا۔ اور نیب کے ریکارڈ کے مطابق اسحاق ڈار اب ملزم نہیں رہے، یہ بھی دیکھا جائے کہ ضابطہ فوجداری میں دفعہ 26 کے تحت اسحاق ڈار کا دوبارہ ٹرائل نہیں ہوسکتا، جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا اسحاق ڈار کا اعترافی بیان وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد ریکارڈ ہوا، شاہد حامد نے کہا وعدہ معاف گواہ بننے والے بیان حلفی اس کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتا، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد بیان اسحاق ڈار نہیں البتہ وزیراعظم کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔ شاہد حامد نے کہا اسحاق ڈار سے بیان یہ کہہ کر لیا گیا بیان نہ دیا تو اٹک قلعہ سے نہیں جانے دیا جائے گا، وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد اسحاق ڈار کے خلاف نااہلی کا حکم جاری نہیںہو سکتا، شاہد حامد نے کہا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 26 کے تحت اسحاق ڈار کا دوبارہ ٹرائل نہیں کیا جاسکتا، جس پر عدالت نے کہا ڈار کے اعترافی بیان پر قانون کے علاوہ غور نہیں کریں گے اور اسحاق ڈار کیس پر ڈبل جیوپرڈی کا اصول لاگو ہو گا، عدالت کا کہنا تھا اسحاق ڈار کو اس کیس میں معافی کے بعد سزا نہیں ہوئی اس لیے ان کے وکیل اس نکتے پر دلائل دیں ایک شخص کا دوبار ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں، اس موقع پر شاہد حامد نے عدالت کو بتایا مشرف دور میں وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ کا سر اور بھنویں منڈوا دی گئی تھیں جبکہ انہوں نے کسی بینک یا مالیاتی ادارے کا کوئی ایک روپیہ بھی ادا نہیں کرنا تھا، نہ ہی ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج تھا، شاہد حامد کے بعد عدالت کی ہدایت پر پراسیکیوٹر جنرل نیب وقاص قدیر ڈار نے اپنے دلائل میں بتایا نیب کے اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا حدیبیہ پیپر ملز کیس میںعدالتی فیصلہ کیخلاف اپیل دائر نہیں کی جائے گی، عدالت نے کہا کیا نیب کیسز میں عدالتی فیصلوں کے خلاف اپیل نہیں کرتا جس پر پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججز کی دانش کے باعث اپیل دائر نہیں کی گئی ، جس پرعدالت نے متعلقہ اجلاس کی کا رروائی کے منٹس طلب کر تے ہوئے پراسیکیوٹر جنرل سے کہا منی لانڈرنگ کیس کے فیصلے کےخلاف نیب، ایس ای سی پی یا سٹیٹ بینک نے اپیل کیوں دائر نہیں کی گئی، نیب کو چاہیے تھاکہ لاہور ہائیکورٹ میں اسحاق ڈار کےخلاف ریفرنس کی منسوخی پر تشویش کا اظہار کرتا۔ سماعت کے دوران وزیر اعظم محمد نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے میاں شریف کی وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیلات سیل بند لفافے میں عدالت میں جمع کرائی گئیں۔ عدالت کے روبرو حسین نواز اور حسن نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایاکہ حسین نواز لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونر ہیں، اور ان فلیٹوں سے نواز شریف کا کوئی تعلق نہیں، جسٹس اعجاز افضل نے ان سے کہا آپ کو عدالت میں ثابت کرنا ہوگا لندن کی جائیدادیں حسین نواز کی ملکیت ہیں اور محمد نواز شریف ان کے مالک نہیں، جسٹس اعجاز افضل نے کہا اس مقدمہ میں الزام یہ ہے کہ لوٹی ہوئی رقم سے منی لانڈرنگ کی گئی، سلمان اکرم راجا نے جواب دیا منی لانڈرنگ کا تعین آرٹیکل 184/3 کے مقدمے میں نہیں ہوسکتا۔ بے شک آرٹیکل 184 /3 میں عدالتی اختیارات وسیع ہیں تاہم دوسرے اداروں کا کام عدالت نہیں کرسکتی اورجس نے ا لزام لگایا اس نے عدالت کے سامنے شواہد نہیں رکھے، درخواست گزار چاہتا ہے کہ لندن کی جائیداد ضبط کی جائے ۔درخواست گزار چاہتا ہے لوٹی گئی رقم سے متعلق تحقیقات کی جائیں،جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ الزام ہے لوٹی ہوئی رقم سے منی لانڈرنگ کی گئی ،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ یہ حقیقت ہے کہ حسین نواز وزیراعظم کے بیٹے ہیں ، اگرحسین نواز کہتے ہیں کہ وہ کمپنیوں کے بینیفیشل مالک ہیں تو ریکارڈ سامنے لانے سے حقائق کا پتا چل سکتا ہے، اورکمپنیوں کے ریکارڈ تک رسائی صرف حسین نواز کو حاصل ہے،آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہاکہ عدالت پہلے متعلقہ قانون کاجائزہ لے جس کے مطابق شواہد فراہم کرنا الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ملزم الزام ثابت ہونے تک معصوم ہوتا ہے ،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ گلف فیکٹری کب سے کمرشلی فنکشنل ہوئی ؟اس کے لیے قرض کب لیا گیا؟قرض کس چیز پر لیا گیا یہ تو واضح ہی نہیں ،اس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ یہ میاں شریف کا پرانا ریکارڈ ہے جو پیش کیا جارہا ہے ،قرض سے متعلق کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔ یہ تسلیم شدہ ہے کہ گلف فیکٹری 1973ءمیں قائم کی گئی ،اس کے 75فیصد شیئرز کی رقم بینک قرضے کی مد میں ادا کی گئی، قرض کے واجبات 36ملین درہم تھے ،گلف فیکٹری کی مکمل قیمت فروخت 33.375ملین درہم بنتی تھی ،اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ فیکٹری کے واجبات کیسے ادا ہوئے، بتایا جائے؟ بظاہر تو کمپنی خسارے میں چل رہی تھی ،تو 12 ملین درہم کا منافع کیسے ہوا؟ سلمان راجا نے کہا نئی فیکٹری نے جب گلف فیکٹری کا انتظام سنبھالا تو خسارہ نہ تھا ،جس پر جسٹس عظمت نے کہا 1978میں فیکٹری کے 75فیصد حصص فروخت کرکے بھی 15ملین واجبات باقی تھے ،کیا آپ کواندازہ ہے باقی واجبات کیسے ادا ہوئے؟ اس پر سلمان راجا نے کہا کوئی اندازہ نہیں صرف قیاس آرائیاں ہیں ،کلثوم نواز اس کیس میں فریق نہیں ان کے بیان کا بھی حوالہ دیا گیا، میاں شریف کو لوہے کے کاروبار کا چار دہائیوں کا تجربہ تھا، فیکٹریاں قومیانے کے باعث 1973ءمیں دوبئی کی رائل فیملی سے رابطہ کیا گیا، فیملی نے سٹیل پلانٹ لگانے کے لیے میاں شریف کو ویلکم کیا ،1975میں سٹیل ملز کے 75فیصد شیئرز فروخت کیے، 1980میں فیکٹری کے باقی 25فیصد شیئرز کی فروخت سے 12ملین درہم ملے ،یہاں میاں شریف مرحوم کا ٹرائل ہورہا ہے، 1970 ءکے دہائی میں انہوں نے فیکٹری لگائی تھی ،چالیس سالہ ریکارڈ سنبھالنے کی کیا ضرورت تھی،ان چیزوں کا ریکارڈ مانگا جارہا ہے جن کا تعلق میاں شریف مرحوم سے ہے،1980 میں فیکٹری کی فروخت کے معاہدے پر طارق شفیع کے دستخط ہیں کہیں دستخط میں فرق ہے، تو وقت گزرنے کے ساتھ دستخط میں فرق آہی جاتا ہے ،جسٹس آصف کھوسہ نے کہا 1972ءمیں فیکٹری کا پیسہ دبئی گیا ،کوئی وضاحت نہیں کی گئی پیسہ کہاں سے آیا ،صرف یہ کہا گیا قرض لیا گیا ،اس پر سلمان راجانے کہا دبئی فیکٹری کے لیے پیسہ پاکستان سے دبئی نہیں گیا، پیسہ پاکستان سے نہیں گیا۔ کسی کے پاس ثبوت ہیں تو سامنے لائے، اس پر جسٹس عظمت نے کہا ہمیں آہستہ آہستہ ساتھ لے کر چلیں ،آپ نے ہمارے ذہن کو کلیئر کرنا ہے ،سلمان راجا نے کہا مجھے کوئی جلدی نہیں ،جسٹس کھوسہ نے کہا ہم کیس کے ہر پہلو کو دیکھنا چاہتے ہیں ،آپ جو کہانی سنا رہے ہیں وہ پہلے بھی سنائی جاچکی ہے ،جس پر راجا نے کہا وہ تو صرف فیکٹری کے معاہدوں کو پڑھ رہے ہیں ،جسٹس کھوسہ نے کہا تقریروں ،بیانات میں جدہ ،دوبئی اور لندن کا ذکر تھا، وزراعظم نے کہا تھا کہ ثبوتوں کا انبار ہے ،اکرم راجا نے کہا عدالت میں معاملہ چار فلیٹوں کا ہے ،جسٹس عظمت نے کہا طارق شفیع کے پہلے بیان میں ذکر نہیں کہ فیکٹری واجبات کیسے ادا ہوئے ،سلمان اکرم نے کہا دوسرے بیان میں طارق شفیع بتایا ہے 12 ملین درہم قسطوں میں قطری خاندان کو دئیے گئے ،جسٹس عظمت نے کہاکیا یہ رقم اونٹوں کی پشت پر لاد کر لے گئے تھے ،اکرم راجا نے کہا نقد رقم سے دنیا بھر میں کاروبار ہوتا ہے ،اس کا غلط مطلب نہ لیا جائے۔ اس پر جسٹس عظمت نے کہا جن سوالات کے جوابات نہ آئیں، تو انکا کیا کیا جائے ۔ اکرم راجا نے کہا فریق مخالف کے پاس میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں مجھ سے حسن و حسین کے بارے میں پوچھا جائے۔ دوسروں کا بوجھ مجھ پر نہ ڈالا جائے جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا بوجھ ڈالنے کے لیے پیچھے رہ کون گیا ہے۔ سلمان اکرم راجہ کے دلائل جاری تھے کہ عدالتی وقت ختم ہونے پر کیس کی مزید سماعت آج منگل تک ملتوی کردی گئی۔ بی بی سی کے مطابق پانچ رکنی بینچ نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے اس اجلاس کی کارروائی کی تفصیلات مانگ لی ہیں جس میں حدیبہ پیپرز ملز کے مقدمے میں ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا ا±ن کے مو¿کل کو نااہل قرار دینے سے متعلق درخواستیں پہلے ہی ہائی کورٹ مسترد کر چکی ہے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کیا اس مجسٹریٹ کو نیب کی عدالت میں پیش کیا گیا جنھوں نے اسحاق ڈار کا بیان ریکارڈ کیا تھا جس پر شاہد حامد نے کہا اس وقت نیب قانون کے مطابق مجسٹریٹ کا عدالت میں پیش ہونا ضروری نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے سوال ا±ٹھایا شریف فیملی کی طرف سے دبئی میں گلف سٹیل ملز کے قیام کے لیے قرضہ تو بینک کے ذریعے لیا گیا جبکہ اس کی ادائیگی کے لیے بینک کی خدمات حاصل کیوں نہیں کی گئیں۔ بینچ نے وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس مل کے قیام کے لیے کوئی رقم پاکستان سے بھیجی گئی جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وہ اپنے مو¿کل سے متعلق ہی جواب دے سکتے ہیں۔ بیرون ممالک رقم بھیجی بھی گئی ہے اس پر فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت ہی کارروائی ہو سکتی ہے۔ سماعت کے دوران گلف سٹیل مل میں وزیر اعظم کے والد میاں شریف کے بزنس پارٹرمیاں شفیع کے بیٹے طارق شفیع کا بیان بھی عدالت میں پیش کیا گیا جس میں کہا گیاا±ن کے والد نے قطری شہزادے کو 12 ملین درہم کی رقم نقدی کی صورت میں ادا کی تھی۔ عدالت نے استفسار کیا گلف سٹیل مل کے قیام کے لیے قرضہ کن بنیادوں پر حاصل کیا گیا جس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا اس بارے میں ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حسین نواز کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا پہلے یہ کہا گیارقم دبئی سے جدہ اور پھر لندن گئی جبکہ اس میں آپ کے مو¿کل کی طرف سے کہا جارہا ہے رقم قطر سے گئی تھی۔وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی حان کی طرف سے میاں شریف کی وراثت کے بارے میں تفصیلات عدالت میں جمع کرادی گئیں۔ وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا یہ تفصیلات صرف جج صاحبان کے دیکھنے کے لیے ہیں۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق جسٹس عظمت سعید نے دریافت کیا کیا قطری فیملی کو 12 ملین درہم اونٹوں پر بھجوائے گئے؟۔
پانامہ کیس
میاں شریف کی جائیداد تقسیم کا ریکارڈ بند لفافے میں پیش....
Jan 31, 2017