اسلام آباد (جاوید صدیق) 26 جنوری کی سہ پہر قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کے درمیان جو دنگل ہوا تھا اور غیر پارلیمانی زبان کا کھلم کھلا استعمال ہوا تھا اسکے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ پیر کے روز اجلاس میں شور شرابہ ہوگا لیکن سپیکر کے چیمبر میں ہونے والے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن میں طے ہوا کہ 26 جنوری کا منظر نہیں دہرایا جائیگا۔ پیر کی شام کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے گزشتہ ہفتے کے واقعہ پر تاسف اور قدرے ندامت کا اظہار کیا گیا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سکھر میں شکار کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر زخمی ہوگئے تھے۔ ڈاکٹروں نے انہیں ایک ہفتہ آرام کا مشورہ دیا ہے۔ خورشید شاہ ایک ہفتہ تک قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہیں آ سکیں گے، انکی جگہ نوید قمر نے ایک پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا انکے 28 سالہ پارلیمانی کیریئر میں اس طرح کا واقعہ پیش نہیں آیا جو جمعرات 26 جنوری کو قومی اسمبلی میں پیش آیا۔ اس روز حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ارکان نے ’’سرخ لائن‘‘ عبور کی اور وہ زبان استعمال کی جو غیر پارلیمانی تھی، اب اس طرح کے طرزعمل کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت کی طرف سے وزیر سرحدی امور لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبد القادر بلوچ نے بھی پانامہ پیپرز کے حوالے سے گزشتہ ہفتے ہونے والے واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا اور بتایا وزیراعظم نے حکومتی ارکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ غیرشائستہ طرزعمل اختیار نہ کریں۔ سپیکر نے جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر طارق اللہ خان کو پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے کا موقع دیا تو طارق اللہ خان نے سرخ لائن تو عبور نہیں کی بلکہ انہوں نے پانامہ پیپرز کے سلسلے میں وزیراعظم پر لگائے جانے والے الزامات کا اعادہ کیا۔ طارق اللہ خان نے وزیر دفاع خواجہ آصف کو ہدف تنقید بنایا اور کہا انہوں نے جماعت اسلامی کے ماضی کے بارے میں بلاجواز نکتہ چینی کی۔ لال حویلی کے مکین شیخ رشید احمد تو اپنی تقریر میں وہ ’’سرخ لائن‘‘ عبور کرتے رہے جس کو عبور نہ کرنے پر حکومت اور اپوزیشن کے ارکان نے اتفاق کیا تھا۔ انہوں نے اپنی مخصوص عوامی زبان میں وزیراعظم پر نکتہ چینی کی۔ جمشید دستی نے بھی اپنے انداز میں حکمران جماعت پر تنقید اور طنز کے نشتر برسائے۔