ایک ملک میں یہ رواج تھا کہ وہ اپنا ایک بادشاہ چُنتے تھے۔ دس سال تک اس کی بہت عزت اور خدمت کرتے تھے۔ لیکن دس سال بعد اسے اٹھا کے جنگل بیابان میں تن تنہا مرنے کے لئے چھوڑ آتے اور اپنا نیا بادشاہ چُن لیتے۔اس لئے جو بھی بادشاہ بنتا وہ دس سال خوب اچھی زندگی بسر کرتا، خوب مال و دولت ‘ ہیرے جواہرات سمیٹتاکیونکہ اسے علم ہوتا تھا کہ یہ سہولتیں عارضی ہیں اور دوبارہ نہیں ملیں گی۔ایک بار یوں ہوا کہ انہوں نے ایک نیا بادشاہ چُنا یہ بادشاہ ایک الگ ہی طرح کا تھا۔ اس بادشاہ نے پہلے ہی دن سے اپنی زندگی بہت سادگی سے گزارنی شروع کی اور باوجود مال و دولت اور آرام و آسائش کے وہ اپنے لئے انتہائی سادہ زندگی پسند کرتا۔ دس سال جب ختم ہونے کو آئے تو یہ بادشاہ پہلے کی نسبت زیادہ خوش رہنے لگا۔ جوں جوں وقت قریب آ رہا تھا بادشاہ پہلے دنوں کی نسبت زیادہ خوش نظر آتاتھا۔ وہ جنگل و بیابان میں جانے سے ہرگز خوفزدہ نظر نہ تھا بلکہ وہاں جانے کے لئے بے تاب تھا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ بادشاہ پاگل ہے۔ ساری عمر تو سادگی سے گزاردی اور اب جنگل میں جانے کا وقت آیا ہے تو مطمئن اور خوش نظر آرہا ہے۔ لوگوں کا تعجب اور حیرت دور کرنے کے لئے اس نے لوگوں کو بتایا کہ چونکہ اُسے علم تھا کہ آخر کار اس نے دس سال بعد بیابان میں جانا ہے اس لئے اس نے یہاں کچھ بھی نہ بنایا بلکہ اپنی ساری مال و دولت سے بیابان میں اپنے لئے عظیم الشان محل ‘ باغات اور ساری سہولتیں بنوا لی ہیں جہاں اسے یقیناً رہنا ہے۔
پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عقل مند لوگ اگلے جہان کے لئے بھی اپنی بھرپور تیاری رکھتے ہیں۔
(قدسیہ نور … پنجاب یونیورسٹی)