وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جبری گمشدگی روکنے کیلئے قانون سازی کا عمل جاری ہے۔ یہ ملک کا بڑا مسئلہ ہے جو انسانی حقوق کے ریکارڈ پر دھبہ ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہحکومت انسانی حقوق کے تحفظ اور اقلیتوں کی ترقی کیلئے پُرعزم ہے۔ وہ جی ایس پی پلس کے اجلاس میں گفتگو کررہے تھے۔
گمشدگیوںکا مسئلہ بلاشبہ دیرینہ اور سنگین ہے۔ اس مسئلے کواجاگر کرنے کیلئے احتجاج‘ مظاہرے کئے گئے اور دھرنے دیئے گئے مگر ہنوز کوئی حل سامنے نہیں آسکا۔ ایسی جبری گمشدگیاں اداروں کے مابین کشیدگی اور غلط فہمیوں کا باعث بنتی رہی ہیں۔ معاملہ سپریم کورٹ تک گیا‘ کئی چیف جسٹس صاحبان نے معاملات کو سختی سے ہینڈل کرنے کی کوشش کی۔ متعلقہ اداروں کی طلبیاں ہوتی رہیں۔ سرکاری وکلاء پر اظہار برہمی معمول بنا رہا مگر یہ مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ بی این پی نے تحریک انصاف کی حکومت میں اتحادی کی حیثیت سے کوئی وزارت نہیں لی۔ ان کا گمشدگیوں کے مسئلے کے حل پر زور تھا۔ مگر حکومت کی طرف سے کوئی اطمینان بخش رسپانس نہ ملنے پر بی این پی کاحکومت سے اتحاد خطرے میں نظر آنے لگا‘ تاہم مثبت پیش رفت یہ ہوئی کہ حکومت نے اختر مینگل کی آرمی چیف کے ساتھ ملاقات کی تجویز کو پذیرائی بخشی۔ چند دن میں ملاقات میں صورتحال میں بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ گمشدگیوں کا مسئلہ پیچیدہ نہیں ہے۔ جولوگ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں‘ وہ ہرگز قابل رحم نہیں۔ ان کا اوپن کورٹ میں ٹرائل کرکے عبرت کی مثال بنانا چاہئے۔ ایسا نہ ہونے سے دہشت گردوں کے لواحقین بھی انہیںگمشدہ افراد کی فہرست میں شامل کرکے اداروں کو بدنام کرتے ہیں۔ کچھ پاکستان دشمن قوتیں اور مقامی عناصر ایسے معاملات کو انسانی حقوق کے ساتھ بھی جوڑتے ہیں۔گمشدگیوں کے حوالے سے حکومت قانون سازی کر رہی ہے۔ اس سے صورتحال بہتر ہونے کا بہرحال امکان ہے۔