ایف او ایف امریکہ اور کسٹمز ہیلتھ کئےر کے ما بین اشتراک

Jan 31, 2019

مشتاق چودھری یوں تو امریکہ میں بستے ہیں لیکن ان کا دل پاکستان میں اٹکا رہتا ہے۔ جونہی کچھ فرصت ملے تو پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ اس بار وہ لاہور پہنچے تومجھے ان کے آنے کی پیشگی خبر تھی اور میںنے ان کے لئے بہت سی مصروفیات طے کر رکھی تھیں۔ان کا خاندان بھی بڑا وسیع ہے۔ رحیم یار خان سے فیصل آباد تک اور لاہور میں برادرم مجیب شامی کا ڈیرہ۔بہن بھائیوں سے ملاقاتیں اور ضیافتیں اور باقی کچھ وقت انہوں نے مجھے بھی دیا ، میںنے ان سے دو گھنٹے کی طویل نشست کی اور ا سکا خلاصہ کالم میں لکھا۔اسے ڈاکٹر آصف جاہ نے پڑھا تو انہوںنے اشتیاق سے کہا کہ مشتاق چودھری سے ملنے کا میں بھی مشتاق تھا۔ مجھے کیوں نہیں ملایا۔ ڈاکٹر صاحب خود نیک سیرت اور فرشتہ صورت انسان ہیں اور مشتاق چودھری بھی دنیاوی آلائشوں سے پاک ا ور ہر دم ذکر الہی یا خلق خدا کی خدمت کا جنون۔وہ آتے ہیں تو ان کی جیب بھری ہوتی ہے، امریکہ میں جو کماتے ہیں ،اسے ہل وطن میں لٹا دیتے ہیں اور خود نیکیاں لوٹتے ہیں۔
اگر سیلاب کی آفت نازل ہو جائے ، یا زلزلہ قیامت ڈھا دے یا خشک سالی سے قحط کی صورت حال جنم لے لے یا دہشت گردی کی وجہ سے لوگوں کو گھر بار چھوڑنا پڑے تو پھر پیسہ ہی انسانی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے۔ ڈاکٹرا ٓصف جاہ اس خدمت خلق کے فن میں ید طولی رکھتے ہیں ،دوہزار پانچ کے زلزلے میں انہوںنے دن رات کام کیا، پنجاب کے سیلاب میں امدادی کاموں میں سرگرمی دکھائی، بارکھان ا ورا ٓواران کے زلزلہ زدگان کی ڈھارس بندھائی، تھر کے قحط زدہ علاقے میں زندگی کی شمع روشن کی اور مظلوم روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی دست گیری کے لئے اپنی خدمات کا دائرہ بنگلہ دیش تک وسیع کیا جو کہ ایک نا ممکن کام تھا، بنگلہ دیش کی حکومت پاکستانیوں کا نام سننا نہیں چاہتی۔شام کی خانہ جنگی نے پچا س لاکھ لوگوں کو گھر سے بے گھر کر دیااور وہ ترکی میں ہجرت پر مجبور ہو گئے تو ڈاکٹر جاہ بذات خود کروڑوں کا سامان لے کر ان شامی مسلمانوں کے درمیان پہنچے اور ان کے زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش کی۔ یہاں یتیموں کی تعداد زیادہ ہے، والدین بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ترک حکومت ا ور عوام نے ان کی کھل کر مدد کی۔ انہیں گھر مہیا کئے۔ دکانیں دیں اور بچوں کو اسکولوں میں داخلہ دیا،یہ سارابوجھ ترک حکومت کی برداشت سے باہر تھا چنانچہ مسلم ممالک کی فلاحی تنظیموںنے بھی ادھر کا رخ کیا جن میں پاکستان کی کسٹمز ہیلتھ کیئر کا کام نمایاں تھا۔
مشتاق چودھری نے اشتیا ق ظاہر کیا کہ وہ اس تنظیم کے روح رواں ڈاکٹرا ٓصف جاہ سے بنفس نفیس ملنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ہم ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ یہ ان کا ہسپتال تھا جہاں مغرب کی نماز باجماعت ادا کی جا رہی تھی اور ہم نے عشاءکی اذان تک نیکیوں کا شاہنامہ سنا۔ کمپیوٹر پر بریفنگ دی گئی ،سلائیڈوں کی مدد سے ڈاکٹر صاحب نے ایک جہان کی سیر کر ادی۔ لیکن یہ سیر انتہائی تکلیف دہ اور کرب ناک تھی۔خاص طور پر روہنگیا کی حالت زار دیکھی نہیںجاتی تھی، دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ترکی کے مہاجر کیمپوں پر نظر ڈالی۔ پھولوں جیسے معصوم بچے والدین کے سہارے سے محروم لیکن دنیا کی کلفتوں سے بے خبر اچھلنے کودنے میںمصروف۔ ان کے جسموں پر زخموں کے نشان ، مگر جو زخم ان کے دل پر لگے ہیں، وہ کیسے نظر آتے۔ڈاکٹرا ٓصف جاہ ان کے کیمپوں میں گھومتے پھرتے رہے اور اپنے ہاتھوں سے ان کو ضروری سامان بھی دیاا ور کچھ نقد رقم بھی۔
ایبٹ آبادا ور کشمیر کے زلزلے کی تصاویر نے روح کو گھائل کر دیا۔ایبٹ آباد تو مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکا۔ اسکولوں میں طالب علم شہتیروں اور چھتوں تلے دب کر رہ گئے۔ یہ شہر ایک اجتماعی قبرستان کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ فیصلہ ہوا کہ شہر نیا بسایا جائے گا، سعودی عرب نے حامی بھری کہ وہ اس کار خیر کو انجام دے گا مگر پندرہ برس گز ر گئے ، ہم متبادل زمین نہیں دے پائے ۔
سیلاب کی ا ٓفت بار بار آتی ہے۔ پشاور کی وادی ڈوب جاتی ہے۔سارا پنجاب جل تھل ہو جاتا ہے۔ انسانی ا ٓبادیوں کا نام ونشان مٹ جاتا ہے۔ ہرے بھرے لہلہاتے کھیت اور باغات سیلاب کی بپھری لہروں کے سامنے تار عنکبوت ثابت ہوتے ہیں۔حکومتی ا دارے تو شلجموں سے مٹی جھاڑتے ہیں ، ایک فوج ہے جو جان ہتھیلی پررکھ کر لوگوں کی جانیں بچاتی ہے اور پھر چند فلاحی تنظیمیں مستقل امداد کا سلسلہ شروع کرتی ہیں۔ ان میں الخدمت اور فلاح انسا نیت پیش پیش ہوتی ہیں مگر ڈاکٹر آصف جاہ بھی تڑپتے دل کے ساتھ سیلاب کے ماروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں ، وہ خود میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ ملازمت کسٹم کے محکمے میں کرتے ہیں جہاں ماشاللہ 21 ویں گریڈ میں چیف کلکٹر نارتھ کے منصب پر فائزہوئے ہیں۔ ان کے اعلی افسران ان کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور پھر مخیر حضرات کی ایک وسیع ٹیم ہے جو ضروری سامان خرید کر ان کے سپرد کرتی ہے اور وہ اپنے رضاکاروں کے ذریعے انہیں آفت زدہ علاقوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ آصف جاہ کی ایک خوبی یہ ہے کہ جہاںجاتے ہیں ، وہاں تعمیر نو کے کاموں کی ابتدا مسجداورا سکول سے کرتے ہیں۔ خود مریضوں کو دیکھتے ہیں اور پھر ایک مستقل میڈیکل کیمپ قائم کر کے واپس اپنی دفتری ذمے داریان سنبھال لیتے ہیں۔ شام کو ان کا معمول ہے کہ کسٹمزکیئر ہسپتال میں تین چار گھنٹے مریض دیکھتے ہیں۔ اس ہسپتال میں لیب بھی ہے اور ہر مرض کے اسپیشلٹ رضاکارانہ ٹائم وقف کرتے ہیں۔مفت چیک اپ اور مفت دوا۔ لوگ انہیں دعائیں دیتے رخصت ہوتے ہیں۔
مشتاق چودھری نے سانس روک کر یہ ساری داستان سنی ۔ ان کی ا ٓنکھیں آنسوﺅں سے نم ہو گئیں، وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ان کی ملاقات کسی فرشتے سے ہو گی جسے اپنی کوئی فکر لاحق نہیں مگر وہ اپنے دفتری فرائض بھی دل جمعی اور مکمل ذمے داری سے ادا کرتا ہے۔اس پر ترقی کے دروازے بھی کھلتے ہیں او انسانی فلاحی خدمات پر حکومت پاکستان ان کو ستارہ امتیاز کاا عزاز عطا کر چکی ہے۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا،یہ سب خدا کی عطاہے۔ مشاق چودھری نے بتایا کہ امریکی مسلمان بھی کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔اپنا۔ اکنا بڑی تنظیمیں ہیں ۔ ہر ضرورت کے وقت وہ اپنے اہل وطن کی مدد کے لئے حاضر ہیں۔ مشتاق چودھری طویل عرصے تک نیویارک میں بزنس کرتے رہے ، اب فلوریڈا منتقل ہو گئے ہیں، انکے تین بیٹے ہیں جو خاندانی بزنس سنبھال چکے ہیں۔ مشتاق چودھری کہتے ہیں کہ امریکی ماحول میں کسی کو فرمانبردارا ولاد نصیب ہو جائے تو یہ بہت بڑی خدائی نعمت ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے تینوں بیٹے ان کے مشورے سے چلتے ہیں اور ان کو ایک ہی سبق دیا گیا ہے کہ آپ کی کمائی اس وقت تک حلال نہیں ہو گی جب تک اس میں سے پوری زکوٰة نہ ادا کی جائے چنانچہ ان کا کاروبار بھی ماشااللہ خوب چمک رہا ہے اور زکوٰة کے پیسوں سے وہ مخلوق خدا کی مدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان کا اکاﺅنٹ اس رقم سے لبا لب بھرا رہتاہے اور وہ کسی حاجت مند کو مایوس نہیں کرتے۔
میںنے اپنا فرض ادا کر دیا کہ کسٹمز ہیلتھ کیئر کے سربراہ ڈاکٹر آصف جاہ اور فرینڈز آ ف فیتھ فل ( ایف ا وایف ) امریکہ کے چیئر مین مشتاق چودھری کے مابین ملاقات کرا دی ، مجھے توقع ہے کہ دونوں کے درمیان اشتراک کار کی راہیں کھلیں گی۔ڈاکٹر آصف جاہ گرین تھر کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنی ا قلیتوں کی طرف بھر پور توجہ دینے کی ضروت ہے اور تھر میں ہندو آبادی جس عذاب سے دوچار ہے،اس کا مداوا اسی صورت ہو سکتا ہے کہ یہاں میٹھے پانی کے کنویں کھودے جائیں ۔ یہاں کی مٹی انتہائی زر خیز ہے اور اگر یہاں شمسی توانائی سے ٹیوب ویل نصب کر کے گرین فارم کی اسکیم کو توسیع دی جائے تو صحرائے تھر لہلاا ٹھے گاا ور ہندو آبادی کی ساری صعوبتیں ختم ہو جائیں گی، ریاست مدینہ کی یہ پہلی ذمے داری ہے۔ ایف او ایف اگرا سی ایک منصوبے میں تعاون پیش کرے تو وطن عزیز کا نام عالمی برادری میں عزت سے لیا جائے گا کہ اس نے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر مسلم اور غیر مسلم میں تمیز کئے بغیر انسانی فلاحی خدمت کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ مشتاق چودھری یہ کام کر دیں تو پاکستان کو عالمی برادری سے ستارہ امتیاز مل سکتا ہے۔ اور خدا الگ سے خوش۔

مزیدخبریں