اسلام آباد (این این آئی+آئی این پی)افغان طالبان اور امریکہ نے افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلاءاور افغانستان سے مستقبل میں امریکہ و دیگر ممالک کےخلاف دہشتگردی روکنے کی تفصیلات کےلئے دو مشترکہ کمیٹیاں بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ طالبان قطر دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے دوحہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ مشترکہ کمیٹیاں 10روز میں اپنا کام شروع کر دیں گی اور آئندہ مذاکرات میں رپورٹس پیش کرینگی۔ آئندہ اجلاس دوحہ میں 25فروری کو ہوگا۔ ترجمان کے مطابق 21جنوری تا 26جنوری کے مذاکرات کے دوران غیر ملکی انخلاءاور افغانستان سے مستقبل میں دوسرے ممالک کے خلاف دہشتگردی روکنے پر اتفاق ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ امریکہ نے جنگ بندی اور افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کے مطالبات بھی کئے تھے لیکن ہم نے انہیں قبول نہیں کیا، ہمارا اصرار تھا کہ جب تک تمام غیر ملکی فوجی افغانستان سے نہیں جاتے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ سہیل شاہین نے کہاکہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاءپر اتفاق تمام افغانوں کا مشترکہ فخر ہے۔ یہ انخلاءہم افغانستان میں طالبان کے اقتدار کےلئے نہیں مانگ رہے ہیں بلکہ ہم ایسی حکومت چاہتے ہیں جس میں تمام افغان شریک ہوں ۔ہم افغانستان میں موجودہ اداروں کو ختم نہیں کر ناچاہتے بلکہ غیرملکی افوج کے انخلاءکے بعد ملک میں اصلاحات چاہتے ہیں۔ افغانستان سب کا واحد گھر ہے اور تمام افغانوں کو اپنے ملک کو غیر ملکی مداخلت سے محفوظ بنانا ہے۔ طالبان کے سیاسی نمائندے روس میں آئندہ ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرینگے ۔یہ کانفرنس ماسکو میں پانچ فروری کو ہوگی۔ سہیل شاہین نے کہاکہ غیر ملکی افواج کے جانے کے بعد افغانوں کو ماضی بھلانا پڑے گا اور ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہنا ہوگا ۔ انہوںنے کہاکہ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ 90کی دہائی میں غیر ملکی افواج کے انخلاءکے بعد والے حالات دوبارہ نہ ہوں۔ قبل ازیں طالبان قطر کے سیاسی دفتر کے سابق سربراہ شیر عباس ستانکزئی نے ایک ویڈیو انٹرویو میں کہا کہ مذاکرات کے دور ان طالبان نے نہ صرف امریکی فوجیوں کے انخلاءبلکہ ان کے تمام مشیر ، تربیت دینے والے اور انٹیلی جنس کے اہلکاروں کے افغانستان سے جانے کا مطالبہ کیا۔ امریکی سفارتخانے کی حفاظت کےلئے اندر محافظین رکھنا آئندہ کی افغان حکومت اورامریکہ کا مسئلہ ہے ۔امریکہ کے ساتھ معاہدے کے وقت اقوام متحدہ ، اسلامی تنظیم کانفرنس ،اہم ممالک ، علاقائی اور ہمسائیہ ممالک گواہ اور ضمانتی کی حیثیت سے موجود ہونگے۔ طالبان کی طرف سے امریکہ کو افغانستان کی سر زمین اور امریکہ اور دیگر ممالک کے خلاف استعمال سے روکنے سے متعلق جو وعدہ کیا گیا ہے ہم اس پر قائم رہیں گے لیکن اگر امریکہ نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا تو ہم بھی فیصلے کر نے میں آزاد ہونگے۔ امریکہ نے تسلیم کیا ہے کہ طالبان کا افغانستان کے اکثر علاقوں میں کنٹرول ہے اوراسی لئے وہ مستقبل میں امریکہ کے خلاف ممکنہ خطرے کو روکنے کےلئے طالبان سے معاہدہ کررہے ہیں ۔طالبان اس لئے امریکہ سے براہ راست مذاکرات چاہتے تھے تاکہ امریکہ سے متعلق معاملات طے ہو سکیں جس میں غیر ملکی افواج کا انخلاء،دفتر کا دوبارہ کھولنا ، قیدیوں کی رہائی اور طالبان رہنماﺅں کے نام اقوام متحدہ کی پابندیوں کی فہرست سے نکالنا شامل تھا ۔ امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کی سربراہی کرنے والے افغان طالبان گروپ کے سربراہ شیر عباس سٹانکزئی نے کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاءمیں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے اور یہ ہمیشہ سے طالبان کا مطالبہ رہا ہے۔ بدھ کو افغان میڈیا کو جاری کردہ ایک پیغام میں کہا کہ امریکہ اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلاءمیں سنجیدہ دکھائی دیتا ہے اور مذاکرات میں ہم نے امریکہ کے اس اقدام سے واقفیت حاصل کی ہے، افغان طالبان کو امید ہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اس ضمن میں اہم کردار ادا کریں گے،افغان طالبان کی جہادی تحریک سے امریکی انتظامیہ افغانستان سے جانے پر مجبور ہوئی ہے اور اب امریکی انتظامیہ افغانستان کےلئے سیاسی آپشنز پر غور کررہی ہے،افغان صدر اشرف غنی اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلاءیا قیام کے حوالے سے فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے، صرف امریکی انتظامیہ ہی یہ اہم فیصلہ کر سکتی ہے۔آئی این پی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ افغانستان کے باسی نہ ختم ہونے والی جنگ سے امن چاہتے ہیں تاہم دیکھتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں امریکی صدر نے کہا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکہ و شمالی کوریا کے مابین بہترین تعلقات کا آغاز ہو چکا ہے۔ جب میں نے امریکہ کی صدارت سنبھالی اس وقت شام میں داعش کی حکمرانی قائم تھی تاہم اب گزشتہ پانچ ہفتوں سے داعش کے خلاف کامیابیاں ملی ہیں، داعش کی خلافت کو جلد تباہ کر دیا جائے گا، جس کے بارے میں ایسا سوچنا دو سال قبل ناممکن تھا۔ افغانستان میں 18 سال کی طویل جنگ کے بعد مذاکرات درست سمت میں جا رہے ہیں۔
ٹرمپ
طالبان کمیٹیاں
کابل (نوائے وقت رپورٹ) افغانستان کے صدر اشرف غنی نے یوتھ فورم سے خطاب کرتے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت بلاشرائط لیکن امن شرائط کی بنیاد پر ہو گا۔ امن کی چابی افغانستان میں ہے کیونکہ ہمارے پاس سکیم، پلان اور روڈ میپ ہے۔ ہمارا مقصد مستحکم امن قائم کرنا ہے۔
اشرف غنی