اکرم چودھری ہمارے دوست ہیں۔ اب وہ پنجاب حکومت میں مشیر کے مرتبے پر فائز ہیں۔ وہ اکثر اتوار بازاروں میں نظر آتے ہیں۔ وہ کبھی وحدت کالونی کوارٹرز کے اتوار بازار میں آئیں۔ میں بھی کبھی نہیں گیا‘ مگر وہ آئیں تو میں بھی چلا آئوںگا۔ وہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ بھی اب باقاعدگی سے نہیں آتے۔ پہلے آتے تھے۔ برادرم شاہد رشید سے ان کی بڑی دوستی ہے۔
سندھ کے کسی ہسپتال میں دو مریضوں کے مرنے کے بعد ڈاکٹروں نے ہڑتال ختم کر دی۔ ان میں لیڈی ڈاکٹرز بھی تھیں۔ حیرت ہے کہ ان کے مطالبات بھی تسلیم کرلئے گئے۔ نجانے مطالبات کیا تھے؟ اگر انہیں تسلیم کرنا تھا تو ہڑتال سے پہلے بھی تسلیم کئے جا سکتے تھے۔ ایک بہت ظالمانہ روٹین پاکستان میں ہے۔ سڑکیں بلاک ہوتی ہیں‘ اب احتجاج میں دھرنا بھی ہوتا ہے۔ دھر رگڑا بھی کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے افسران اور حکمران اپنے ہونے کا احساس تب کرتے ہیں جب احتجاج ہوتا ہے۔ افسران اور حکمران اتنے بزدل کیوں ہیں۔ اتنے ظالم کیوں ہیں۔ پھر یہ مطالبات پہلے ہی تسلیم کر لیں۔
قیدی آصف ہاشمی نے مطالبہ کیا کہ جیل میں سب قیدیوں کیلئے ایک مستقل ڈاکٹر کو رکھا جائے۔ مجھے یہ بات پسند آئی۔ آصف ہاشمی جیل میں ہیں اور سارے قیدیوں کو بھائی سمجھتے ہیں۔ وہ اصل میں تو قائد ہیں‘ انہیں شکوہ ہے کہ مجھے جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا ہے۔
سیاستدان اقتدار میں نہ ہوں‘ ایوان سے باہر ہوں تو بیمار پڑ جاتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ کبھی بیمار نہیں پڑتے۔ پھر جب حصول اقتدارکی بات آتی ہے تو چنگے بھلے ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ بھی سیاست ہے؟ مگر میری گزارش ہے کہ نوازشریف کے حوالے سے احتیاط کریں۔ ایسا نہیں کہ وہ بیمار پڑتے ہی چلے جائیں گے۔ وہ اپنی بیٹی مریم نواز سے بھی زیادہ صحت مند لگتے ہیں۔ مریم نواز مجھے ایک سیاستدان کے طورپر پسند ہے۔ وہ ایک صحت مند سیاستدان ہے۔ نوازشریف کی سیاست اب ان کے ہاتھ آئی ہے۔ ان کے دونوں بھائیوں نے بہت اچھا فیصلہ کیا۔ یہ بالکل صحیح سمجھا کہ سیاست ان کے بس کی بات نہیں۔ وہ اس کے بغیر ہی ارب پتی ہو گئے ہیں تو پھر حمزہ شہباز کا کیا بنے گا؟
شہباز شریف نے ایک کوشش تو کی ہے کہ خود قومی اسمبلی یعنی وفاق کی سطح پر وہ قائد حزب اختلاف ہیں۔ پنجاب میں بھی اپنا سیاسی قبضہ برقرار رکھنے کے لئے اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو قائد حزب اختلاف بنوا دیا ہے۔ حمزہ شہباز تو سیاست کو اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ وہ بھی کچھ جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہے۔ شہباز شریف اسی اندازکے لئے معروف ہیں۔ وہ اختلافی سیاست کو بھی اقتدار کی طرح استعمال کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
سب سے لمبی سزا تو آصف زرداری نے کاٹی۔
مجاہد صحافت مجید نظامی نے انہیں مرد حُر کا خطاب دیا تھا۔ نواز شریف ناراض بھی ہوئے۔ نظامی صاحب نے کہا کہ وہ آپ کی طرح جدہ سعودی عرب کے سُرور محل میں نہیں چلے گئے تھے۔ مرد حُر بھی ’’حریت سیاست‘‘ کے اصل معانی نہ سمجھ سکے۔ اب پھر جیل جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔
میری گزارش موجودہ حکومت سے ہے کہ وہ زرداری صاحب کی جیل جانے کی خواہش کوسمجھیں۔ کہتے ہیں عمران خان جیل نہیں گئے۔ قائد اعظم بھی جیل نہیں گئے تھے۔ ا س بات میں کسی طرح کی سیاسی مماثلت لانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے مگر یہ بات بہت مضحکہ خیز ہے۔
کہتے ہیں کہ چودھری نثار نے پنجاب اسمبلی کے ممبر کے طور پر حلف نہیں اٹھایا۔ اس کے باوجودوہ لیڈر ہے۔ ان ارکان کی اکثریت ہے جوحلف اٹھا کے بھی کوئی تیر نہیں چلا سکے۔ یہ چودھری نثار کا تحفہ ہے کہ وہ قومی اسمبلی کی دونوں نشستوں سے ہار گئے تھے۔ جیت کے ساتھ ہار بھی لگی ہوئی ہے۔ چودھری نثار نے سیاست میں کچھ بھی نہیں بنایا۔ وہ اسلام آباد کے پنجاب ہائوس کے ایک فلیٹ میں ساری سیاسی زندگی گزار کے چلے جائیں گے۔ میری ملاقات چودھری نثار سے یہیں برادرم نواز رضا نے کروائی تھی۔
نامور شاعر محمد جلیل عالی کا ایک شاندار اور منفرد ترین مجموعۂ نعت شائع ہوا ہے۔ میری نیازمندانہ رائے یہ ہے کہ اس طرح کا نعتیہ مجموعہ کبھی شائع نہیں ہوا ہے۔ میں اس پر تفصیلی بات آئندہ کسی کالم میں کروں گا۔
دل شاد ہے ہر دور کی شدت سے زیادہ
کیا چاہئے اور اسؐ کی محبت سے زیادہ
یہ سچ ہے کہ ہم اسؐ کی پرستش نہیں کرتے
رہتا ہے مگر دل میں عبادت سے زیادہ