آجکل پورے ملک میں سازشوں کا موسم ہے، بالکل اسی طرح جس طرح سردی، گرمی ،بہار، خزاں کا موسم ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ موسم اکثروبیشتر ہر پانچ سالہ منصوبے کے دوران اتنی شدت اختیار کر جاتا ہے کہ اگلے لمحے کی خبر نہیں ہوتی۔ جب سب دیواروں سے کان لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ آج کل تو دیوار کی بجائے لوگ ٹی وی سکرینوں کے سامنے اور سوشل میڈیا پر سن گن لے رہے ہیں اور ہر کوئی حسب معمول اپنی خبریں اپنے اپنے ذرائع سے آگے بڑھا رہا ہے، کچھ خبریں سچی ہیں اور کچھ انتشار پیدا کرنے والی ہیں۔ کچھ خبروں میں رہنے کیلئے ہیں اور کچھ لوگوں کو ایک مخصوص سمت لے جانے کیلئے گھڑی جا رہی ہیں تاہم آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے بعد نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی تاریخی عزت افزائی کے بعد کچھ نئے موضوعات بھی زیر بحث ہیں۔ جس طرح یہ کہا جا رہا ہے کہ شاید اس کے نتیجے میں کوئی خفیہ ڈیل ہو چکی ہے جس کا تاثر بہرحال مسلم لیگ نون دینے سے باز نہیں آتی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شاید وہ اس طرح اپنے ان ناراض کارکنوں کو راضی رکھنا چاہتی ہے جنہوں نے اس پر بھرپور احتجاج کیا تھا اور نظریاتی ڈگر سے ہٹنے پر سخت غصے کا اظہار کیا تھا۔ کل جب سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جناح کیپ کے ساتھ اپنی تصویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی ہے لوگوں میں یہ چہ مگوئیاں زیادہ شدت اختیار کر گئی ہیں کہ شاید کچھ ایسا ہونے جارہا ہے جو ابھی تک واضح نہیں ہو رہا اور آنیوالے دنوں میں شہبازشریف پاکستانی سیاست میں دوبارہ اِن ہو جائیں۔ بھائی جہاں تک مسئلہ پنجاب کا ہے یہاں ہمیشہ سے عثمان بزدار کو مخالفت کا شدت سے سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ کسی بھی شریف النفس شخص کو حکمران برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ تو بھلا ہو پنجاب حکومت کا جو کسی نے انہیں راجہ جہانگیر جیسے ویژنری اور فعال سیکرٹری اطلاعات و ثقافت تعینات کرنے کی صلاح دی۔ جب سے راجہ جہانگیر نے اس سیٹ کا چارج سنبھالا ہے لوگوں کو پنجاب حکومت کی کارکردگی کے بارے میں بہتر طریقے سے علم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اگرچہ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پنجاب کے اندر بہت سارے وزیر مشیر اور ایم پی اے ایم این اے اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ وہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو کسی نہ کسی حوالے سے متنازعہ بنا کر پیش کریں یا کارکردگی کے حوالے سے ان پر کوئی الزام لگائیں لیکن راجہ جہانگیر کی مثبت کوششوں کی وجہ سے ہمیں عثمان بزدار حکومت کے ان کاموں سے روشناسی ہوئی جو ابھی تک سب کی آنکھوں سے اوجھل تھے، یعنی کام ہو رہا تھا لیکن وہ ظاہر نہیں ہو رہا تھا۔ یہ بڑی مثبت بات ہے کہ اچھے اقدامات کا اعتراف کیا جائے اور دوسروں تک پہنچایا جائے۔ وزیراعلیٰ کے ساتھ ساتھ وزیراعظم پاکستان نے بھی اس بات پر زور دیا تھا کہ ہم نہیں ڈرتے لیکن جو کام ہوئے ہیں ان کی تشہیر ضروری ہے تاکہ عوام کو پتہ چل سکے کہ موجودہ حکومت کن کن محاذوں پر جنگ لڑنے میں کامیاب ہوئی ہے، اس نے کیا اہداف حاصل کیے ہیں اور اس کیلئے کیا کرنا ابھی باقی ہے۔یہ بھی کہنا پڑے گا کہ وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے جب سے اس عہدے کا دوبارہ چارج سنبھالا ہے وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور کابینہ کی کارکردگی کو لوگوں کے سامنے لانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اب ہم سب جانتے ہیں کہ فیاض الحسن چوہان بڑے سکہ بند وزیر ہیں اور بات کرنے کا فن بھی جانتے ہیں۔ انکی بات بہت سارے لوگوں کے درمیان نمایاں محسوس ہوتی ہے۔ پوری دیانت داری سے وزیراعلیٰ پنجاب کی نیک نامی اور مثبت اقدامات کو اجاگر کرنے میں انہوں نے دن رات ایک کر رکھا ہے تاہم اس وقت ضرورت یہ ہے کہ بجائے روزانہ کسی نہ کسی صوبہ یا مرکز کے حوالے سے افواہیں پھیلانے کے، جیسے کبھی سندھ کبھی بلوچستان کبھی کے پی کے اور کبھی پنجاب کی حکومت ہل رہی ہے، وہاں یہ ہورہا ہے یا مرکز میں کوئی چھوڑ کر جارہا ہے کوئی آرہا ہے، ساری توجہ ملک کی تعمیروترقی پر مرکوز کی جائے، اس حکومت کو چین سے کام کرنے دیا جائے اور وزیراعظم نے اپنے تمام اختیارات استعمال کرتے ہوئے بلند بانگ لہجے میں جس طرح عثمان بزدار اور دیگر صوبوں کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر واضح کیا اور اپنی کمٹمنٹ کا اظہار کیا وہ شاید ہے کہ آپ لوگوں کی رائے اور مخصوص لوگوں کی پسند کے مطابق کسی فرد کو وزیراعلی لگا سکتے ہیں نہ ہٹا سکتے ہیں۔