اسلام آباد (نا مہ نگار) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ خواہش ہے کرپٹ عناصر کو ہوٹل میں بند کرکے پیسے وصول کیے جائیں۔ چوہدری شوگر ملز ایک بہت بڑا کارپوریٹ فراڈ ہے۔ اس کے معاملے پر گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ اس کی تحقیقات بھی چل رہی ہیں، چوہدری شوگر ملز کیس میں زیادہ تر ملزمان ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ قانون غیر حاضری میں ٹرائل کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا کہ چوہدری شوگر ملز ایک بہت بڑا کارپوریٹ فراڈ ہے اس کے معاملے پر گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں، اس کی تحقیقات بھی چل رہی ہیں اور اس حوالے سے پوچھا جاتا ہے کہ اس میں کیا کرپشن ہوئی تو اس داستان کو میں نے 10نکتوں میں تقسیم کردیا ہے کہ یہ اصل میں ہے کیا اور اسے کس طرح منی لانڈرنگ میں استعمال کیا گیا۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ چوہدری شوگر ملز کے اثاثے ابھی ساڑھے 6ارب کے لگ بھگ ہیں جب 1991ء میں یہ قائم کی گئی تو اس وقت اسے لگانے والے خاندان کے نواز شریف کی اس وقت کل ظاہر کردہ حیثیت 13لاکھ روپے تھی جبکہ شوگر ملز لگانے کے لیے کافی سارا سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قصہ یہاں سے شروع ہوتا ہے یہ شروع مل کیسے لگائی گئی، 90کی دہائی میں قرضوں کا بڑا کام چلتا تھا، شوگر ملز لگانے کے لیے سب سے پہلے جو نام سامنے آیا وہ شیڈرون جرسی کمپنی کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیڈرون جرسی کے نام پر آف شور کمپنی بنائی گئی اور اس نے مشینری خریدنے کے لیے تقریبا ڈیڑھ کروڑ ڈالر قرض دیا جس کی شرط یہ تھی کہ مشین خریدیں گے جس کے پیسے ادا کردیے جائیں گے اور مشینری پاکستان آجائے گی لیکن جب کاغذی کارروائی ہوئی تو نہ پیسے پاکستان آئے نہ مشینری، نواز شریف وزیراعظم بن گئے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ اس کمپنی نے سٹیٹ بینک سے خصوصی اجازت لی کہ مشینری تو ہم نے یہیں سے لے دے کر لگا کر شوگر مل شروع کردی ہے ہمارے پاس اس قرض کو مقامی میں تبدیل کرکے ہمیں یہاں سے پیسے اس قرض کی واپسی کے لیے دینے کی اجازت دے دیں وہ اجازت مل گئی۔ انہوں نے کہا کہ ایسا قرض جو پاکستان نہیں آیا، ایسی مشین جو پاکستان نہیں آئی اس کے عوض سود ملا کر اگلے 4سے 5سالوں میں وقت سے پہلے قرض ادا کردیا گیا، 2کروڑ ڈالر پاکستان سے باہر بھیجنے کے لیے ایک بلینک چیک دے دیا گیا اور وہ پیسے اس مد میں واپس بھی بھیجے گئے۔ معاون خصوصی نے کہا کہ منی لانڈرنگ اور اثاثہ جات کا پتہ لگانے والے ورلڈ بینک کے پروگرام کی ویب سائٹ پر یہ آج تک موجود ہے کہ شیڈرون جرسی کا جو پتہ ہے ٹیمپل ہائوس سینٹ ہیریئر جرسی آئی لینڈ، پاناما کے اندر شامل دیگر 8کمپنیوں کا بھی یہی ایڈریس ہے۔ تو اس سے بھی نشاندہی ملتی ہے کہ شیڈرون جرسی کس قسم کی کمپنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کا ٹھیکہ نواز شریف کے رشتے دار کو دیا گیا جس میں سے چوہدری شوگر ملز میں پیسے آئے۔ صدیقہ سید کے نام پر 18ملین ڈالر اور سعودی شہری کے نام پر ڈیڑھ ملین ڈالر کی جعلی ٹی ٹیز چوہدری شوگر ملز کے لیے بنائی گئیں۔ معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا کہ شیئرز کو پہلے نواز شریف پھر مریم نواز کے نام کیا گیا، بعد میں 45فیصد شیئرز یوسف عباس کے نام پر ڈال دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قوانین کے مطابق ہی تمام چیزیں کرنی ہیں، ہمارے نظام میں خامیاں ہیں جس کی وجہ سے انصاف کا نظام تاخیرکا شکار ہے۔ سب سے پہلے چیزوں کا سراغ لگانا ہوتا ہے، پھر انویسٹی گیشن اور اس کے بعد پروسیکیوشن کا عمل ہوتا ہے۔ پاناما کیس میں کتنا عرصہ سپریم کورٹ کے سامنے چلا اور اس کے بعد ڈیڑھ سال مقدمہ چلا تھا۔ انہوں نے کہا کہ چوہدری شوگر ملز کیس میں زیادہ تر ملزمان ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں قانون غیر حاضری میں ٹرائل کی اجازت نہیں دیتا ملزم اگر باہر چلا گیا ہے تو جب تک وہ واپس نہیں آتا ٹرائل نہیں کرسکتے، نوازشریف لندن جا کر بیٹھے ہوئے ہیں، نوازشریف یہاں تھے تو لمحہ بہ لمحہ ان کا پلیٹ لیٹس کائونٹس آتا تھا، اب لندن میں ہیں تو پنجاب حکومت کو ان کی تازہ میڈیکل رپورٹس نہیں دی جا رہیں، ایسے نہیں چل سکتا آپ لندن میں گھومتے رہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ وہاں سیروتفریح کرتے رہیں اور ہم یہاں انتظارکریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہمیں قانون میں تبدیلی کرنی ہوئی تو پارلیمان سے کرنی ہوگی، پارلیمان میں قانون پیش کرنے پر مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔ معاون خصوصی نے کہاکہ ریکوریز کا سلسلہ تو سزا کے بعد آتا ہے اور جب سزا ہوتی ہے تو اپیل کے دو فورمز احتساب عدالت کے معاملے میں ایک اپیل ہائی کورٹ اور دوسری سپریم کورٹ کی ہوتی ہے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ دوسرے ممالک کی طرح ایک بڑا سا ہوٹل ہوتا اس میں سب کو بند کردیں اور جب شام کو نکالیں تو پیسے لے کر نکالیں لیکن ہمیں ملک کے قوانین کا احترام کرنا ہے۔