مودی کی پاک فوج کو آٹھ سے دس دن میں شکست دینے کی بڑ اور دفتر خارجہ پاکستان کا ٹھوس جواب
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کسی خوش فہمی کا شکار ہو کر بڑ ماری ہے کہ انکی فوج سات سے دس دن میں پاکستانی فوج کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گزشتہ روز بھارتی کیڈٹس کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ بھارت نوجوان سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور ہم نے سرجیکل سٹرائیکس سے دہشت گردوں کو انکے ٹھکانوں میں نشانہ بنایا۔ انکے بقول دو ائرسٹرائیکس سے نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی امن قائم ہوا۔ مودی نے مزید ہرزہ سرائی کی کہ پاکستان نے دہائیوں سے کشمیر میں بھارت کیخلاف سازشی جنگ چھیڑ رکھی ہے جس سے ہمارے سینکڑوں لوگ اور سکیورٹی اہلکار متاثر ہوئے۔ مودی کے بقول بھارتی فوج نے متعدد بار اپنی حکومت سے بارڈر پر دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کرنے کی اجازت طلب کی مگر اسے یہ اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں آزادی کے بعد سے ہی مسئلہ برقرار ہے۔ کچھ خاندانوں اور سیاسی جماعتوں نے خطے میں اس مسئلہ کو زندہ رکھا جس کے نتیجہ میں وہاں دہشت گردی پروان چڑھ رہی ہے۔
دوسری جانب پاکستان نے بھارتی وزیراعظم مودی کی غیرذمہ دارانہ اور جنگ کی آگ بھڑکانے والی روایتی شرانگیز ہرزہ سرائی کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ اس سلسلہ میں دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں باور کرایا گیا ہے کہ مودی کا متعلقہ بیان ایک طرف پاکستان کے بارے میں ناقابل علاج جنون کی عکاسی ہے تو دوسری جانب بی جے پی حکومت اور قیادت کی ان مسلسل کوششوں کا حصہ ہے جس کا مقصد کشمیر مخالف‘ اقلیت مخالف امتیازی اور متعصبانہ پالیسیوں پر بھارت پر ہونیوالی تنقید سے دنیا کی توجہ ہٹانا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کی دھمکیاں اور اشتعال انگیز بیانات اس امر کو مزید واضح کرتے ہیں کہ بی جے پی کی قیادت پر انتہاء پسندانہ سوچ کا غلبہ ہے جو ریاستی اداروں میں بھی گھس چکی ہے۔ دفتر خارجہ نے اپنے ردعمل میں مودی سرکار کو یاد دلایا کہ گزشتہ برس بالاکوٹ میں بھارتی مس ایڈونچر‘ بھارتی طیارے مار گرانے اور بھارتی پائلٹ کی گرفتاری پاکستان کی مسلح افواج کی ہمہ وقت تیاری‘ ہر بھارتی جارحیت کا منہ توڑ اور مؤثر جواب دینے کی صلاحیت و استعداد کے اظہار کیلئے کافی ہونے چاہئیں اور کسی بھی جارحیت کا دندان شکن جواب دینے کیلئے ہماری مسلح افواج کی صلاحیت اور عزم کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ ہم دنیا پر زور دیتے ہیں کہ وہ بھارتی قیادت کے جنگی جنون اور اشتعال انگیز غیرذمہ دارانہ بیانات کا نوٹس لے جس کے جارحانہ اقدامات اور رویہ سے خطے کے امن و سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ بیان میں اقوام عالم سے توقع ظاہر کی گئی کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائینگے جس سے جموں و کشمیر کے تنازعہ کے پرامن حل کی راہ ہموار ہو تاکہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن و سلامتی قائم ہوسکے۔
ویسے تو بھارت کی ہر حکومت کا ایجنڈا پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا ہی رہا ہے جس کا آغاز تقسیم ہند اور تشکیل پاکستان کے ساتھ ہی کردیا گیا تھا کیونکہ اکھنڈ بھارت کے سہانے سپنے دیکھنے والی ہندو لیڈر شپ کو بھارت کی کوکھ میں سے پاکستان کی شکل میں جنم لینے والی ایک آزاد اور خودمختار مملکت گوارا نہیں ہوئی تھی چنانچہ انہوں نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی اسے کمزور کرنے کی مختلف سازشوں کے تانے بانے بننا شروع کر دیئے۔ پہلی سازش وسائل سے محروم اور بائونڈری کمیشن کی متعینہ حدود کے قطعی برعکس ایک کٹاپھٹا پاکستان قائداعظم کے حوالے کرنے کی صورت میں کی گئی جسے قائداعظم نے اپنے فہم و تدبر کے ساتھ بھارتی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے اپنے پائوں پر کھڑا کرکے دکھایا چنانچہ بھارت نے اگلی سازش پاکستان سے فطری الحاق کی متقاضی خودمختار ریاست جموں و کشمیر کا تنازعہ کھڑا کرکے اور فوجی شب خون کے ذریعے اس پر تسلط قائم کرکے کی گئی۔ اگر اس وقت کے انگریز پاکستانی کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی قائداعظم کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے پاکستانی افواج بھی کشمیر میں داخل کر دیتے تو اس پر فوجی تسلط جمانے کی بھارتی سازش کبھی کامیاب نہ ہوتی تاہم پاکستان کی سلامتی کمزور رکھنا برطانوی وائسرائے ہند اور انکے کٹھ پتلی ہندو لیڈران کا مشترکہ ایجنڈا تھا جس کے حوالے سے ہندو لیڈران کو زعم تھا کہ پاکستان اپنی کمزور حیثیت کے باعث اپنا وجود زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکے گا اور جلد ہی واپس بھارت کی گود میں آگرے گا۔ نہرو نے اسکی بڑ بھی ماری مگر قائداعظم نے اپنے عزم و ہمت سے ہندو لیڈران کی تمام سازشیں خاک میں ملا دیں اور کٹے پھٹے پاکستان کو مضبوط معیشت میں تبدیل کرکے دکھایا۔ بدقسمتی سے قائداعظم قیام پاکستان کے ایک سال کے دوران ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے جس کے بعد بھارت کو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشیں مزید پروان چڑھانے کا موقع ملا۔ انہوں نے پاکستان کو اسکے حصے کے پانی سے مستقل محروم کرنے کیلئے کشمیر پر اپنا تسلط مزید مضبوط بنایا اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے والی یواین قراردادوں سے یکسر منحرف ہوکر کشمیر پر اٹوٹ انگ کی گردان شروع کر دی اور پھر اپنے آئین میں ترمیم کرکے اسے باقاعدہ اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔
اسکے برعکس کشمیری عوام نے بھارتی تسلط کبھی قبول نہیں کیا اور بے پناہ جانی اور مالی قربانیاں دیتے ہوئے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد گزشتہ 72 سال سے جاری رکھی ہوئی ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھی بھارت کا بنیادی تنازعہ کشمیر پر ہی ہے کیونکہ کشمیر کے پاکستان میں شامل ہونے سے ہی تکمیل پاکستان ہوگی اور اسکی معیشت مضبوط و مستحکم ہو جائیگی جو بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کے سراسر منافی ہے۔ چنانچہ بھارت نے اسی نیت سے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں اور 1971ء میں مکتی باہنی کو ساتھ ملا کر پاکستان کو سانحۂ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا جس کے بعد بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے بڑ ماری تھی کہ آج ہم نے دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبودیا ہے۔ نریندر مودی مکتی باہنی کے ایک کارکن کی حیثیت سے اسکی پاکستان توڑو تحریک میں عملاً شریک ہوئے تھے جس کا اعتراف وہ وزیراعظم بھارت کی حیثیت سے بنگلہ دیش کے سرکاری دورے کے دوران ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کرچکے ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے حوالے سے بھارت کے کانگرسی حکمرانوں سے بھی زیادہ متشددانہ سوچ رکھتے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ گجرات کی حیثیت سے اپنی ریاست میں ہندو مسلم فسادات کی راہ ہموار کرنا اور مسلمانوں کا قتل عام کرانا بھی مودی کے متشددانہ ٹریک ریکارڈ کا حصہ ہے چنانچہ اسی بنیاد پر انہوں نے بھارتی وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد پاکستان دشمنی کو فروغ دینے کا بیڑہ اٹھایا اور بھارت کی مسلمان اقلیتوں کا ناطقہ تنگ کرنے کی بھی حکمت عملی طے کرلی جبکہ مقبوضہ کشمیر میں نوجوان حریت پسندوں کی آواز دبانے کیلئے مودی سرکار نے مظالم کے نئے ہتھکنڈے اختیار کرلئے۔ مودی کا پہلا دور اقتدار پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں کے تانے بانے بنتے‘ اس پر مقبوضہ کشمیر میں دراندازی اور دہشت گردی کے سنگین الزامات لگاتے‘ پانی کے تنازعہ کو جنگ کی نوبت لانے کیلئے بروئے کار لاتے اور بھارتی مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کا ناطقہ تنگ کرکے سیکولر بھارت کو متعصب ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی سازشیں پروان چڑھاتے گزرا ہے جس میں مودی سرکار نے جہاں کنٹرول لائن پر بھارتی اشتعال انگیزیوں میں اضافہ کیا وہیں اوڑی دہشت گردی کا الزام پاکستان پر تھوپتے ہوئے اس پر سرجیکل سٹرائیک کی خود نریندر مودی نے بڑ ماردی مگر انہیں بلاثبوت یہ بڑ مارنے پر اپنی ہی لوک سبھا میں اپوزیشن کی سخت تنقید اور تقاضے پر سرجیکل سٹرائیک کا کوئی ثبوت پیش نہ کرپانے کی ہزیمت اٹھانا پڑی۔
ایسی ہی حرکت مودی سرکار نے لوک سبھا کے انتخابات کے موقع پر اپنی دوسری ٹرم کیلئے کامیابی کی خاطر پاکستان کے ساتھ دشمنی کا ماحول گرمانے کی سازش کے تحت پلوامہ میں خود ہی بھارتی فوجی قافلے پر خودکش حملہ کراکے اور پھر بلاثبوت اس حملے کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر کی اور پھر پاکستان کو اندر گھس کر مارنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں جس پر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بھی انہیں مسکت جواب دیتے ہوئے باور کرایا گیا کہ مودی سرکار کی کسی بھی شرارت کا بھرپور جواب دینے کیلئے ہماری مسلح افواج مکمل تیار ہیں اس لئے وہ پاکستان کے ساتھ دشمنی بڑھا کر عالمی ایٹمی جنگ کی نوبت لانے سے گریز کریں تاہم مودی سرکار نے اپنی جنونی منصوبہ بندی کے تحت گزشتہ سال 26 فروری کو کنٹرول لائن پر پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جس کی فضائیہ کے جہاز بالاکوٹ تک پہنچ گئے اور جب پاک فضائیہ کے دستے نے سرعت کے ساتھ ان کا تعاقب کیا تو وہ بالاکوٹ میں پے لوڈ گرا کر رفوچکر ہوگئے اور اسکے ساتھ ہی مودی سرکار نے پاکستان کے اندر حملہ کرکے مبینہ دہشت گردوں کا کیمپ تباہ کرنے کی بڑ مارنا شروع کر دی مگر سرجیکل سٹرائیک کے دعوے کی طرح یہ دعویٰ بھی باطل ثابت ہوا اور پاکستان نے پوری دنیا کو دکھا دیا کہ بالاکوٹ میں بھارتی پے لوڈ گرانے سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی وہاں دہشت گردوں کا کوئی کیمپ موجود تھا۔
اگلے روز 27 فروری کو بھارت نے دوبارہ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی کوشش کی تو پہلے سے چوکس پاک فضائیہ کے مشاق دستے نے بھارتی جہازوں کو فضا میں ہی اچک لیا اور دوجہاز مار گرائے جن میں سے ایک جہاز کے پائلٹ ابھی نندن کو زندہ گرفتار کرلیا گیا جس پر دنیا بھر نے پاکستان کی جنگی دفاعی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ مودی سرکار کو دوسری بار پاکستان کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی تاہم ہندو ووٹروں میں پاکستان مخالف جذبات بھڑکانے کی انکی انتخابی حکمت عملی کامیاب رہی اور وہ پہلے سے بھی زیادہ اکثریت کے ساتھ دوسری ٹرم کیلئے وزیراعظم منتخب ہوگئے جس کے ساتھ ہی انہوں نے کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کے اقدامات کا آغاز کر دیا اور گزشتہ سال 5۔ اگست کو مقبوضہ کشمیر میں دو لاکھ اضافی افواج داخل کرکے شب خون مارا‘ کشمیریوں کو کرفیو کے ذریعے گھروں میں محصور کر دیا اور پھر لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بل منظور کراکے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی۔ مودی سرکار کے اس انتہاء پسندانہ اقدام اور بھارتی ہندو جنونیت کیخلاف گزشتہ تقریباً چھ ماہ سے دنیا بھر میں احتجاج جاری ہے۔ عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پر لانے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے مودی سرکار پر دبائو ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی مگر مودی سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی اور اس نے جہاں مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 179 روز سے کرفیو برقرار رکھا ہوا ہے وہیں اس نے بھارت کی مسلمان اور دوسری اقلیتوں کا ناطقہ تنگ کرنے کیلئے ان پر مظالم کا سلسلہ بھی دراز کر دیا جنہیں متنازعہ شہریت بل لا کر بھارتی شہریت سے محروم کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ اس بھارتی اقدام پر بھی دنیا بھر میں آوازیں اٹھ رہی ہیں اور خود پورا بھارت میدان کارزار بن چکا ہے۔ گزشتہ روز بھی مغربی بنگال میں مظاہرین پر فائرنگ سے دو افراد جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ متنازعہ بھارتی شہریت بل کیخلاف یورپی پارلیمنٹ میں بھی آواز اٹھ رہی ہے اور لکسمبرگ کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس عالمی دبائو کو ٹالنے اور اپنے توسیع پسندانہ اقدامات سے عالمی توجہ ہٹانے کیلئے ہی اب مودی سرکار پاکستان کیخلاف محاذ دوبارہ گرمانا چاہتی ہے۔ اسی تناظر میں مودی نے گزشتہ روز ہرزہ سرائی کرتے ہوئے پاکستان کو آٹھ سے دس دن میں شکست دینے کی بڑ ماری ہے جبکہ کھیلوں میں بھی پاکستان دشمنی پر مبنی ماحول گرمانے کیلئے بھارت نے پاکستان میں ایشیاء کپ کھیلنے سے انکار کر دیا ہے۔ مودی سرکار کی بڑ کا پاکستان کے دفتر خارجہ اور پاکستان میں ایشیاء کپ کھیلنے سے انکار پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے بھارت کو کرارا جواب دے دیا گیا ہے تاہم اقوام عالم کو اب بخوبی احساس ہونا چاہیے کہ بھارتی جنونی عزائم پاکستان ہی نہیں پورے خطے اور پوری عالمی برادری کا امن تاراج کرنے پر منتج ہو سکتے ہیں۔ اسی تناظر میں بھارتی جنونی ہاتھ سختی سے روکنے کی آج زیادہ ضرورت ہے جس کیلئے بہرصورت عالمی قیادتوں اور اقوام عالم کے نمائندہ ادارے اقوام متحدہ نے ہی کردار ادا کرنا ہے۔ اگر انہیں عالمی امن و سلامتی مقصود ہے تو انہیں مصلحتوں کا لبادہ اتار کر بھارت کو شٹ اپ کال دینا ہوگی۔ مودی سرکار کی گیدڑ بھبکیوں پر پاکستان بہرصورت اپنے دفاع کا ہر تقاضا نبھانے کو مکمل تیار ہے اور جری و بہادر عساکر پاکستان اسکی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس حوالے سے بھارت اور اسکے حواریوں کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔