ماضی کی حکومتوں میں یہ دیکھا جاتا رہا ہے کہ اکثر و بیشتر ترقیاتی فنڈز بڑے شہروں پر خرچ ہوتے رہے اور بڑے بڑے منصوبے صرف بڑے شہروں کو ہی ملتے رہے۔ ایک عرصے تک بڑے منصوبے بڑے شہروں میں لگتے رہنے کی حکمت عملی کی وجہ سے چھوٹے شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد میں نہ صرف احساس محرومی بڑھتا رہا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا گیا کہ چھوٹے شہروں کی طرف سے یہ آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں کہ بڑے شہر اور بڑے شہروں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ان کا استحصال کر رہے ہیں۔ چھوٹے شہروں سے یہ آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہوئیں کہ ان کے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کیا جا رہا۔ اس احساس محرومی کا اظہار قومی سطح پر یا پارلیمنٹ میں بھی ہوتا رہا جب کہ مختلف عوامی اجتماعات میں بھی چھوٹے شہروں سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندے اور سماجی کارکن حکومتوں کے اس دوہرے معیار حکمت عملی اور پالیسی پر تنقید کرتے رہے۔ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس عمران خان اور پاکستان تحریکِ کا ہمیشہ سے یہ وعدہ، دعوی اور منشور کا حصہ رہا ہے کہ وہ ملک کے تمام شہروں اور ملک کے تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتے ہوئے سب کو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے ایک ہی جیسے اور یکساں مواقع فراہم کریں گے۔ پاکستان تحریک انصاف اپنے اس منشور پر عمل کرتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے۔ آپ دیکھیں کہ جنوبی پنجاب میں بھی ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے ملک کے دیگر شہروں میں بھی ترقیاتی منصوبے بے اور عوام کی طرز زندگی کو بلند کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔وزیراعظم پاکستان عمران خان کا وژن یہی ہے کہ ملک کے تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا اور کسی شہری کے ساتھ یا کسی شہر کے ساتھ یا کسی بھی علاقے کے ساتھ کسی بھی قسم کی ناانصافی نہیں کی جائے گی۔ وزیراعظم جب بھی لاہور آتے ہیں تو وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار سے ہونے والی ملاقات میں اس عزم کو نہ صرف دہراتے ہیں بلکہ انہیں کام کی رفتار کو تیز کرنے کی ہدایت بھی جاری کرتے ہیں۔ عمران خان کے وژن کے مطابق ساہیوال ماڈل سٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس منصوبے میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سب سے اہم کردار ادا کریں گے۔ انہیں ساہیوال کو بہترین اور ترقی یافتہ شہر بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کی ہدایت بھی کی گئی ہے اور انہیں اس سلسلہ میں خصوصی اختیارات بھی دیئے گئے ہیں۔ چودھری محمد سرور نہ صرف ساہیوال میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیتے رہیں گے بلکہ ان کاموں کی مکمل نگرانی بھی کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ساہیوال سے آئندہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ بھی کر چکے ہیں۔ چودھری محمد سرور نے ساہیوال میں اپنی رہائش گاہ کی تعمیر کا فیصلہ کرتے ہوئے دس کنال زمین بھی خرید لی ہے۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور ساہیوال سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر رہے ہیں۔ یوں ساہیوال سے چودھری محمد سرور عوامی سیاست کا آغاز کر رہے ہیں ان کی عوامی سیاست میں آمد کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ ہمیں ان جیسی عوامی آوازوں کی پارلیمنٹ میں ضرورت ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی سیاست میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ ان جیسے صلح جو، نرم، مفاہمت اور میل جول کی سیاست کرنے والے افراد کی ضرورت ہے۔ چودھری محمد سرور سیاسی گفتگو کے ماہر ہیں وہ مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے کے فن سے بخوبی واقف ہیں مختلف سیاسی جماعتوں کی اہم قیادت کے ساتھ ان کے ذاتی اور سیاسی تعلقات خاصے اچھے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ عوامی سیاست کے قائل ہیں اور عام آدمی کے مسائل قیادت کے سامنے پیش کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ ناصرف مسائل کی نشاندھی کر کے انہیں قیادت کے سامنے پیش کرنے بلکہ مسائل حل کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔
گذشتہ روز چودھری محمد سرور سے ملاقات پر ساہیوال ماڈل سٹی کے منصوبے پر اور ملکی مسائل پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ گورنر پنجاب کہتے ہیں کہ حکومت کو عوامی مسائل کا ناصرف ادراک ہے بلکہ حکومت عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے سخت اور مشکل فیصلے بھی کر رہی ہے۔ چونکہ یہ مشکل فیصلے ہیں اور ابتدائی طور پر ان بہتر فیصلوں کے فوائد عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے لیکن یہ بات طے ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف ہی ملک کو قرضوں کی دلدل اور معیشت کو مضبوط بنائے گی۔ اس کٹھن سفر میں ہم پر بہت زیادہ تنقید ہو رہی ہے ہم اس تنقید کا خیر مقدم بھی کرتے ہیں لیکن ملک و قوم کے بہتر مستقبل کی خاطر غیر ضروری تنقید کی وجہ سے فیصلوں کو نہیں بدل سکتے۔ گورنر پنجاب کہتے ہیں کہ حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا، بجلی مہنگی ہوئی، تمام امپورٹڈ آئٹمز مہنگی ہو گئیں حتی کہ بیرون ملک سے منگوائی جانے والی کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گورنر پنجاب کہتے ہیں کہ آج حکومت پر بڑھ چڑھ کر تنقید کرنے والے سیاستدان یہ کیوں نہیں بتاتے کہ آج تک زراعت کو ملک کی طاقت کیوں نہیں بنایا جا سکا۔ آج ہمیں دالیں بھی امپورٹ کرنا پڑ رہی ہے حالانکہ ہم ایک زرعی ملک ہیں اور یہ چیزیں ہمیں پیدا کرنی چاہییں دالیں تو دور کی اب تو ہمیں چینی اور آٹا بھی باہر سے منگوانا پر رہا ہے۔ مہنگائی کی وجوہات میں ڈالر کی اڑان ہے تو وہیں کرونا کی وجہ سے بھی حکومت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہمیں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ان مشکل حالات میں حکومت معیشت کی بہتری اور ملک و قوم کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے کیے گئے سخت فیصلوں سے پیچھے نہیں ہٹی۔ ڈالر کے جہاں نقصانات ہوئے ہیں وہیں یہ فائدہ بھی ہوا ہے کہ مقامی مارکیٹ کو اپنا معیار بلند کرنے کا موقع ملا ہے۔ مقامی مارکیٹ نے بیرونی دنیا ہر انحصار کے بجائے اپنا معیار بلند کرتے ہوئے صارفین کا اعتماد جیتنے کی کوشش شروع ہے۔ اس کوشش میں کامیابی بھی ملی ہے اگر معیار مسلسل بلند ہوتا رہا اور مقامی مارکیٹ پختہ عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کے فیصلے پر قائم رہی تو ہم امپورٹڈ دنیا سے کسی حد تک جان چھڑانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ حکومت مقامی مارکیٹ کو ہر انداز میں سپورٹ کر رہی ہے۔ کیا یہ حکومت کی کامیابی نہیں ہے۔ یہ امپورٹڈ دنیا میاں نواز شریف کا کیا دھرا ہے انہوں نے مقامی مارکیٹ کو مضبوط کرنے کے بجائے امپورٹڈ اشیاء کو فروغ دیا اس کے نتیجے میں مقامی مارکیٹ بیٹھ گئی۔ ہم اس جال سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی ناقدین کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے۔ بہر حال ہم پختہ عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، ہماری نیت صاف ہے، ہم ملک و قوم کی خدمت کے لیے آئے ہیں۔ نیک نیتی کے ساتھ کام کریں گے۔ چودھری محمد سرور کی یہ باتیں قارئین تک پہنچا دی ہیں اگر آپ اس کا جواب دینا چاہتے ہیں تو ہمارے صفحات حاضر ہیں۔
دوسری طرف فواد چودھری نے اعتراف کیا ہے کہ حکومت انصاف کے شعبے میں اصلاحات میں ناکام رہی ہے۔ فواد چودھری تحریکِ انصاف کا حقیقی چہرہ ہیں۔ ان پر جماعتیں بدلنے کی وجہ سے تنقید ہوتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ پختہ سیاسی سوچ کے حامل ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں ہے کہ وہ حکومت میں ہونے اہم وزارت کی ذمہ داری سنبھالنے کے باوجود اعلانیہ جہاں جہاں حکومت ناکام ہو اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ کیا کسی اور سیاسی جماعت میں ایسا ہوتا ہے؟ حکومت کو بے پناہ اندرونی و بیرونی مسائل کا سامنا رہا اور اس کے ساتھ ساتھ کرونا کی وجہ سے مشکلات میں اضافہ ہوا تاہم اس مشکل کی وجہ سے کئی نئے راستے بھی کھلے اور ان نئے راستوں پر فواد چودھری اچھا کام کر رہے ہیں۔ جو لوگ ان پر تنقید کرتے ہیں حق کی آواز بلند کرنے ان کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے۔ فواد چودھری نے یہ بھی کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان وزارت قانون کو متعدد بار کہہ چکے ہیں لیکن کام کی رفتار سست ہے۔ فواد چودھری کا اعتراف ان کی پختہ سیاسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ حکومت کچھ کرے یا نہ کرے لیکن ایسے بیانات سے اسے فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ فواد اپنی وزارت میں خاصے متحرک ہیں انہیں چاہیے کہ اپنی وزارت کی گذشتہ ایک سال کی کارکردگی رپورٹ شائع کریں۔ دو ہزار اکیس میں اپنے اہداف کا اعلان کریں اور ان اہداف کے حصول کا طریقہ بتاتے ہوئے ملک و قوم کی رہنمائی کریں کیونکہ جس وزارت میں وہ ہیں یہی دنیا کا مستقبل ہے۔
چودھری محمد سرور نئے سفر پر اور فواد چودھری کی حق گوئی!!!!
Jan 31, 2021