کچھ سال پہلے نجیب احمد اور مرحوم خالد احمد کی دوستی مثالی تھی۔۔۔وہ اکثر میرے گھر آتے تو ان کے ساتھ اشرف جاوید بھی آتا۔۔۔وہ تینوں ہی شاعر تھے میرے میاں گو شاعرو ادیب نہیں مگر ان میں ادبی ذوق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ،دیکھتے ہی دیکھتے وہ ان کے دوست بن گئے، جس دن وہ نہ آتے تو ان کی کمی کو محسوس کرتے۔سٹڈی روم سے قہقہوں اور باتوں کی آواز سے مجھے پتہ چل جاتا کہ وہ تینوں آچکے ہیں خیر میں بھی ان میں شامل ہو جاتی۔۔۔شعروشاعری کی مجلس لگ جاتی۔۔۔مٹھائی اور چائے سے ان کی تواضع کی جاتی۔۔۔کچھ روز ہوئے میں سٹڈی روم میں گئی تو اشرف جاوید کی شاعری کی کتاب بساط میز پر پڑی ہوئی تھی۔۔۔میں نے سوچا یہ کتاب کون دے گیا ہے۔۔۔یہ ایک معمہ تھا میرے لئے خیر اتنا تو مجھے معلوم تھا کہ اشرف کا شعری مجموعہ چھپ چکا ہے۔اشرف جاوید کو میں بہت سالوں سے جانتی ہوں۔۔۔ ۔ نجیب اور خالد احمد کی شاعری تو میری نظر سے گزری تھی ان کے اشعار مجھے پسند بھی آتے تھے مگر اشرف جاوید کی شاعری سے میں مستفید نہیں ہوئی تھی۔۔۔اشرف جاویدکے شعری مجموعہ کی کتاب غائبانہ طور پر میرے سامنے تھی ۔ لیکن آج جب میں نے بساط۔۔۔۔ ان کا شعری مجموعہ دیکھا تو مجھے کافی سال پہلے کا زمانہ یاد آگیا۔ کافی سال پہلے میرے فنکشنز (functions) پر کالم پڑھے تھے تو میں ممنون بھی ہوئی تھی۔۔۔۔وہیں سٹیڈی روم میں بیٹھے بیٹھے میں نے ان کے شعری مجموعہ پر نظر دوڑائی۔۔۔اتنے عمدہ اشعار تھے کہ چند گھنٹوں میں ہی ساری کتاب پڑھ ڈالی۔۔۔پھر مجھے خیال آیا کہ مجھے بھی ان پر کچھ کالم لکھنا چاہیے۔۔۔ان کے اشعار سے۔۔۔یہ اندازہ ہوا۔۔۔کہ شعر کہنے میں وہ کسی کا نقال نہیں ہے۔ اس کا اپنا اسلوب ،اپنا انداز اور اپنا خیال ہے۔
یوں تو فیس بک پر گاہے بگاہے۔۔۔ان کی غزلوں کو دیکھتی ہوں تو اندازہ ہوتا ہے۔۔۔۔کہ انہوں نے شاعری میں خوب محنت کی ہے اور پختگی پیدا کی ہے۔۔۔شاعری میں جو کچھ بھی کہتے ہیں اپنے انداز میں کہتے ہیں۔ یوں تو ہر شاعر چاہتا ہے کہ میرا لکھنے کا سٹائل دوسرے سے الگ ہو۔ لیکن۔۔۔اشرف جاوید نے مختلف انداز میں لکھ کر ثابت کر دیا کہ وہ دوسروں کی شاعری سے استفادہ نہیں کرتے بلکہ اپنی بات اپنے انداز میں کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں…؎
* جب ہم میں کوئی خاص لڑائی بھی نہیں ہے
پھر ملنے ملانے میں لڑائی بھی نہیں ہے
* اس بار بھی اس پار کھڑے سوچ رہے ہو
اس بار تو رستے میں خدائی بھی نہیں ہے
* بازار میں انصاف لئے بیٹھا ہے منصف
بازار تلک اپنی رسائی بھی نہیں ہے
* جب چلا جائے بلا خوف و خطر وہ
جانے میں کوئی قید لگائی بھی نہیں ہے
شاعر علی شاعر۔۔۔کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں
ایک اچھے انسان کی خوبی ہے کہ ہر موڑ پر سچ بولتا ہے چاہے ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہو یا اپنی ذات کے خلاف گواہی دینی ہو۔یہ کام سب سے مشکل اور دشوار ہے مگر اہل حق ہوتے ہیں وہ اپنی ذات کے خلاف بھی گواہی دے دیتے ہیں جن سے ان کا بول بالا ہو جاتا ہے۔اشرف جاوید نے جس قلم کا سہارالیا ہے۔اس کے بارے میں یوں لکھتے ہیں۔
* ہم نے قلم اٹھایا ہے سچ کی گواہی میں
جس کی سیاہی خشک ہو،یہ وہ قلم نہیں
اشرف جاوید نے ادب میں بہت نام کمایا ہے۔۔۔اور عزت شہرت سے اللہ نے ان کو نوازا ہے۔۔۔ان کی شخصیت میں انکساری ہے کوئی تکبر اور غرور نہیں ہے۔شاعر علی شاعر لکھتے ہیں۔ہر عاشق کو اپنے محبوب کا پیام ملنے پر خوشی ہوتی ہے۔اس کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔اسے ویرانے میں بھی گلزار نظر آنے لگتے ہیں۔ محبوب سے ملنے کی خوشی سے اس کا چہرہ گلاب کی طرح کھل اٹھتا ہے۔ایسے موقع پر اشرف جاوید بحیثیت عاشق اپنے محبوب کا دل بڑا کرتے ،حوصلہ بڑھاتے اور آئو بھگت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
* بند ہیں غیروں کیلئے دل کے تمام رستے
آپ خوشی سے آئیے،خوشی سے جائیے
اشرف جاوید نے نہ صرف غزلیں اورنظمیں لکھی ہیں بلکہ نعت کہنے میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے۔
ثور ہوتا،یہ دل حرا ہوتا
سر بہ سر ثور سے بھرا ہوتا
بولتا آپ کی گواہی میں
ورنہ کنکر سا بے صدا ہوتا
نعتیہ شاعری(ﷺ) کی شان میں کہتے ہیں۔
ہم اس لمحے سے ہیں جب زندگی ہوتی نہیں تھی
ہوا اورآگ ،مٹی اور نمی ہوتی نہیں تھی
ستاروں کے چمکتے سکے بھی ٹکسال میں تھے
فلک کی جیب بھی زر سے بھری ہوتی نہیں تھی
نہ کوئی پیار کا بندھن،نہ رشتہ خون کا تھا
فقط بیگانگی تھی،دوستی ہوتی نہیں تھی
اشرف جاوید کی شاعری میں قدرتی پن ملتا ہے۔کسی اور کی شاعری کی چھاپ نہیں ہے اس کا تخلیق کیا ہوا ادب جاوداں ہے۔ اس کی شاعری ہمیشہ زندہ رہے گی۔اس کی شاعری کی یہ بھی خوبی ہے جو بات اشرف جاوید نے کہنا چاہی وہ واضح اور دو ٹوک کہہ دیتا ہے۔یہ اندا ز ہمارے ہاں قدرے ناپید ہوتا جا رہا ہے۔اسکے اشعار ہمیشہ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں کیونکہ۔۔۔۔۔انکی شاعری میں بناوٹ نہیں ہے۔۔۔بلکہ سچائی کوٹ کوٹ بھری ہے۔۔۔حالانکہ سچ لکھنا بہت مشکل کام ہے۔ میری دعا ہے کہ مستقبل میں وہ خوب سے خوب تر لکھے اور لوگ اس کی سوچ اور خیالات سے مستفید ہوتے رہیں ۔