اے جذبۂ دل، اے جذبۂ دل!

Jan 31, 2021

میاں غلام مرتضیٰ

انسانی جذبات کو ہماری زندگی میں بنیادی اہمیت حاصل ہے، انفرادی معاملات ہوں یا اجتماعی صورت حال، تاریخ حیرت انگیز اور ناقابلِ یقین واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جن واقعات کا بھی جائزہ لیا جائے ، اُن میں انسانی جذبات کا کردار اور عمل دخل واضح طور پر ملتا ہے ۔ کوئی واقعہ بظاہر معمولی نوعیت کا ہو ، اگر وہ اہمیت حاصل کر گیا ہو، تو اس کی بڑی وجہ انسانی جذبات ہی ہوں گے۔ صدیوں پہلے بھی ایسا ہوتا رہا اور آج بھی ایسے ہی ہو رہا ہے۔ انسانی جذبات ان حیران کن واقعات کی بنیادی وجہ ثابت ہوتے ہیں۔ بادشاہوں اور سپہ سالاروں نے جس دَور میں بھی حیرت انگیز اور ناقابلِ یقین کارنامے انجام دئیے تو انفرادی اور ذاتی حیثیت میں بھی لوگوں نے ایسے ایسے کار ہائے نمایاں انجام دئیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بظاہر ایسے کارنامے ممکن دکھائی نہیں دیتے لیکن جو واقعات حقیقت میں سامنے آئے ، ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ تاریخ کا یہ حصّہ انسانی جذبات کا نتیجہ تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ چنگیز اور ہلاکو خان نے انسانی کھونپڑیوں سے مینار بنائے ہوں، یا مغل بادشاہ نے تاریخی تاج محل تعمیر کیا ۔ فرہاد نے اپنی محبت کو پانے کے لیئے شیریں کے لئے چٹانوں کے درمیان ایک نہر محض اپنے تیشے کی مدد سے تیار کر کے سب کو حیران کر دیا۔ سبھی واقعات انسانی جذبات کے تابع رونما ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے واقعات کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ محبت اور نفرت کی بنیاد پر ایسے انتہائی غیر معمولی کارنامے سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے حال ہی میں دو ایسے واقعات سامنے آئے ہیں۔ جن کا تعلق پڑوسی ملک بھارت سے ہے ۔ریاست مدھیہ پردیش میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو کئی کلو میٹر دُور سے پانی لانے کی تکلیف سے یوں نجات دلائی کہ صرف اس علاقے ہی نہیں، دوسرے ملکوں میں بھی اس کارنامے اور جذبۂ محبت کا چرچا ہو رہا ہے۔ بھرت سنگھ ایک مزدور ہے۔ دوسرے گھروں کی عورتوں کی طرح اس کی بیوی بھی کافی دور جا کر کنویں سے پانی لایا کرتی تھی۔ یہ بڑا مشقت بھرا کام تھا۔ پینے کے علاوہ برتن کپڑے وغیرہ دھونے کے لئے ہر روز پانی لانا پڑتا تھا۔ اکثر اس کی بیوی تھکن اورپریشانی کااظہار کیا کرتی تھی۔ ایک روز یوں ہُوا کہ اس کی بیوی بیماری کے باوجود پانی بھرنے گئی اور اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی۔ بھرت سنگھ نے مزدوری کے لئے شہر جانا چھوڑ دیا اور اپنے گھر میں تن ِتنہا ایک کنواں کھودنا شروع کر دیا۔ اس نے دن رات کی سخت محنت اور مشقت سے صرف پندرہ دنوں میں یہ کام مکمل کر لیا۔ بھرت سنگھ کو اپنی بیوی سے بے پناہ محبت تھی، اس کو روزانہ پانی بھر کر لانے کی مشقت سے بچانے کے لئے اُس نے یہ کارنامہ انجام دیاتو اس کی بیوی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے اپنے شوہر کے زخمی ہاتھوں کو چوم چوم کر اس کا شکریہ ادا کیا۔ اسی طرح سے باپ بیٹی کی محبت نے بھی پڑھنے والوں کو حیران کر دیا جب لاک ڈائون کے دوران تمام ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے بیٹی نے اپنے بیمار والد کوسائیکل پر بٹھا کر ریاست ہریانہ سے ریاست بہار تک بارہ سو کلو میٹر کا سفر طے کیا اس عزم اور بہادری کی بِناپر جیوتی کماری کو بچوں کے اعلیٰ قومی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ان کارناموں کی دھوم تیزی سے پورے ملک میں پھیل گئی اور پھر دوسرے ملکوں کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذریعے اس کا چرچا ہو رہا ہے۔ یہ حیران کن واقعات میاں بیوی اور باپ بیٹی کی محبت کے ایسے واقعات ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ یہ سب انسانی جذبات کا کمال تھا ۔محبت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ محبت فاتح عالم ہے، یہ دلوں کو ہی نہیں ، ہرقسم کی صورتحال اور مشکل معاملات پر قابو پا لیتی ہے۔ ایسے ہی کارناموں کی وجہ سے بے ساختہ کہا گیا۔ ’’زندہ باد‘‘اے محبت زندہ باد‘‘۔ انسانی جذبات کی انتہا ہو تو اس سونامی کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا ۔ ناممکن کو ممکن بنانے والے انسانی جذبات ہر دَور میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ کیا خوب کہا ہے۔ اے جذبۂ دل، ا ے جذبہ ٔ دل ، اگر میں چاہوں ، وہ شے جو نظروں سے دُور ہے، وہ میرے مقابل آجائے!۔ جذبۂ محبت کی صداقت سے انکار ممکن نہیں ۔ ایسے ایسے کارنامے اس جذبے کی قوت سے انجام دئیے جاتے ہیں کہ عقل ِانسانی حیران رہ جاتی ہے۔ اس انہتائی غیر معمولی جذبے کو مثبت انداز میں استعمال کر کے بہت سے اچھے کام جو عام حالات میں ناممکن ہوں کئے جا سکتے ہیں، جو محض توجہ نہ ہونے کی وجہ سے پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچتے ۔ اگر اس طرف مکمل یکسوئی ہوجائے تو حقیقی معنوں میں تبدیلی آسکتی ہے۔ یہ وہ تبدیلی ہو گی، جس کے لئے ہم ترس کررہ گئے ہیں۔ اے کاش! ہم اس جانب بھرپورتوجہ دے سکیں ۔ بنیادی مسئلہ او ر المیہ یہ ہے کہ ہم لوگ جذبۂ محبت کی بجائے نفرت اور مخالفت کے جذبات میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے اور پریشان کرنے کی کارروائیوں میں زیادہ ملوث رہتے ہیں۔ اس رحجان کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ جذبہ ٔ محبت کو فروغ دیتے ہوئے نفرتوں اور منفی جذبات کے بہائو کو روکنا چاہیئے موجودہ حالات کو بہتر بنانے کے لئے جذبۂ محبت کی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کرنا چاہیئے۔ 

مزیدخبریں