ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی سات بہترین یو نیورسٹیوں میں شامل'وارٹن بزنس سکول،یونیورسٹی آف پنسلوینیا'کے گریجوایٹ ہونے کے باوجودایسی غلطی کے مرتکب ہوئے کہ نوازشریف کے برابرآن کھڑے ہوے اورنہ صرف ان کی اپنی پارٹی بلکہ پورے امریکہ کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔کیونکہ گریجوایشن کے بعد انہوں نے اپنے والد کے رًیل اسٹیٹ کے کاروبارکونہ صرف سنبھالا بلکہ اسے وسیع پیمانے تک پھیلانے میں کامیاب ہوے۔اور یوں ٹرمپ اپنی تعلیمی قابلیت کے باوجود اپنے کاروباری طورواطوارکی بنا پرحکومت کو اپنی رئیل اسٹیٹ" سمجھ بیٹھے۔مگرکیپیٹل ہل پرحملے کے بعد امریکی سیاستدانوں کا جو ری ایکشن دکھائی دیا وہ پاکستانی سیاستدانوں کے کردارکی قلعی کھولتا اورپاکستانی سیاست کی آلودگی کوآشکارکرتا دکھائی دیتا ہے اس واقعہ کے بعدٹرمپ کی اپنی ری پبلکن پارٹی کے ممبران نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی بلکہ کچھ نے تو ٹرمپ سے فوری مستعفی ہو نے کا مطالبہ بھی کیا۔ان میں سرفہرست ’’ورمنٹ اسٹیٹ‘‘ کے گورنرفل سکاٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگرٹرمپ مستعفی نہیں ہوتے تو انہیں طاقت کے ذریعے وائٹ ہائوس سے نکال دیا جائے۔ مزید براں وائٹ ہائوس کے کچھ اعلیٰ عہدیداروں نے احتجاجاًاپنے عہدوں سے استعفے دے دیئے،ان میں وہاں کے چیف آف سٹاف سٹیفنی گریشن ،سوشل سکیورٹی آفیسر’’رکی نایسٹا‘‘اور پریس سیکرٹری سارا میتھیوزشامل تھے۔آیئے اب دوسری طرف ہم اپنے پیارے پاکستان کے ’’کبھی نہ ڈرنے والے،نہ جھکنے والے۔ نہ بکنے والے،با ضمیر سیاستدانوں‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں۔ سپریم کورٹ سانحے پرن لیگ کے کسی ایک ممبر نے استعفیٰ تو کجا،کوئی مذمتی بیان ہی دیا ہو ؟یا کوئی احتجاج کیاہو؟نہیں۔ ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا سوائے شرمندگی کے۔ بس یہی سب سے بڑا فرق ہے اور یہی سب سے بڑی رکاوٹ بھی۔جوکبھی بھی ہمیں ایک مہذب قوم کی صف میں کھڑا نہیں ہونے دے گی۔ رسول پاکؐ کاارشاد ہے کہ ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنا سب سے بڑاجہادہے۔ مگرہمارے سیاست دانوںکا سب سے بڑاجہاد اپنے لیڈرکے ناجائزکرتوتوں پرپردہ ڈالنا ہے بلکہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کران کوجائزثابت کرناہے۔ ان نامی گرامی سیاستدانوں کا یہ کرداردیکھ کر تولگتا ہی نہیں کہ ان میں سے کسی نے اللہ کوجواب دینا ہے۔ بلکہ ایسے لگتا ہے کہ سوائے چند ایک کے ان سب نے صرف اورصرف اپنے ’’قائد‘‘ کو جواب دینا ہے۔ اور ان چندایک میں ایک ’’چن‘‘بھی شامل ہے جس نے اپنے والد حاجی افضل چن کی شاندار اور بے مثال روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ’’تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا‘‘ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے باعزت طور پرمستعفی ہوگئے۔ ندیم افضل چن کا سابقہ ریکارڈ بتاتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے دورمیں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کا عطا کیا جانے والا عہدہ بھی ان کے ضمیر کی آواز کو نہ دبا سکا اوروہ آصف علی زرداری کے غلط فیصلوں پر تنقید کرنے والے واحد شخص تھے۔حاجی افضل چن جو مسلسل چار مرتبہ ایم پی اے اور ایک مرتبہ وزیر بھی رہے ان کا بھی ریکارڈ ہے کہ انہوں نے ن لیگ کا ایم پی اے ہوتے ہوئے ہمیشہ نہ صرف نوازشریف کی غلط پالیسیوں پرشدید تنقید کی بلکہ اسمبلی کے اجلاس میں ان کی موجودگی میں یہ تک کہہ دیا کہ میاں صاحب،آپ ایک بزنس مین ہیں۔مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ حکومت کو کاروبار کی طرح نہ چلاناشروع کردیں۔یقیناً ایسا کہنے کی جرأت صرف وہی کرسکتاہے جوکسی کا’’کانڑاں‘‘ نہ ہو۔ مطلب کہ اس نے کبھی کوئی کرپشن نہ کی ہو،اسے کسی عہدے کا لالچ نہ ہوکیونکہ حوس ولالچ انسان کو بزدل اور بے ضمیر بنا دیتے ہیں۔ یاد رکھیں جب تک ہم لالچ و حوس پرستی، مصلحت پرستی،شخصیت پرستی، سیاسی خاندان پرستی، خوشامد پرستی، عہدہ پرستی،’’کھاباپرستی‘‘۔ ان تمام پرستیوں سے نکل کرصرف اورصرف حق پرستی کا دامن نہیں تھام لیتے،ہم ایک غیرت مند اورجرأت مند قوم نہیں بن سکتے،اورجب تک ہم ایک غیرت مند اورجرأت مند قوم نہیں بنیں گے،ہم کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیںہوسکتے۔اور ترقی کی اس راہ کو ہموارکرنے کے لئے اس کے راستے میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ کاروباری اور تاجرانہ ذہنیت سے نجات حاصل کرنا ہوگی اورحکومت میں ان کا راستہ روکنا ہوگا۔ ورنہ یہ سوچناہی عبث ہے کہ سیاست کو کرپشن سے پاک کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر سیاست کو کرپشن سے پاک نہ کیا گیا تو جتنا مرضی زورلگا لیں،جو مرضی فارمولا آزما لیں ملک سے کبھی بھی کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔
ڈونلڈ ٹرمپ ‘ نوازشریف اور افلاطون
Jan 31, 2021