جوبائنڈن انتظامیہ اور ہماری خارجہ پالیسی کا امتحان 

تین واقعات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔ جو ماضی میں رونما ہوئے مگر مستقبل میں ہمارے سامنے سینہ تان کر آ کھڑے ہو ئے ہیں یہ گردش زمانہ ہے کہ ہم ماضی کو پیچھے چھوڑ آتے ہیں مگر ماضی مستقبل بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے تلخ ماضی تلخ مستقبل کو جنم دیتا ہے یعنی ماضی کی کنکریاں بروقت نہ ہٹائی جائیں تویہ مستقبل میںبھاری پتھر بن جاتی ہیں جن کو ہٹانا اور اٹھانا مشکل ہوجاتا ہے دانش ،اتحاد اور مصلحت سے گھانٹھیں سلجھائی جاتی ہیں جبکہ ان سے عاری ہو کر خود کشی کی طرف مارچ کیا جاتا ہے یہ عمل ایک عام انسان کا ہو تو ایک خاندان کی موت ہوتی ہے اگرایک حکمران کا ہو تو ایک قوم کی موت اور تباہی ہوتی ہے ۔ ان تین واقعات کی نزاکت پر بات بعد میں کرتے ہیں پہلے واقعات ملاحظہ فرمائیں ۔
26نومبر 2011ء کی صبح دو بجے افغانستان کی طرف سے نیٹو فورس کے دو اپاچی ہیلی کاپٹر صلالہ چیک پوسٹ پر پہنچے اور پاکستانی فوجی بیرکس پر حملہ کر دیا ہیلی کاپٹر ز کوامریکی فوج کے اے 130گن شپ اور دو ایف 15فائٹر جیٹس کور دے رہے تھے ۔پاکستانی جوانوں نے جوابی فائرنگ کی لیکن حملہ اچانک اور شدید تھا پاک فوج کے جوانوں کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا چنانچہ پاک فوج کے 26جوان شہید ہو گئے شہداء میں میجر اور کیپٹن لیول کے دو افسر بھی شامل تھے ۔ اس وقت آصف علی زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے ۔ یہ حملہ خوف ناک اور ناقابل برداشت تھا پاکستان نے شدید احتجاج کیا اور نیٹو فورس کی سپلائی بند کردی جنرل لائیڈ آسٹن اس وقت سیٹ کام کے کمانڈر تھے یہ سیٹ کام کی تاریخ کے پہلے سیاہ فام کمانڈر تھے یہ واقعہ ان کی کمانڈ میں ہواتھا یہ دسمبر 2011میں ترقی پاکر امریکی فوج کے وائس چیف آف اسٹاف بن گئے ۔یہ اپنی غلطی ماننے کو تیار نہ تھے ان کا کہنا تھا کہ فائرنگ کا آغاز پاکستانی فوجیوں کی طرف سے ہوا تھا ان کا یہ موقف سراسر غلط تھا لیکن طاقت چونکہ اپنی غلطی کوغلطی نہیں مانتی اس پر مستزاد یہ کہ طاقت ور کی بات ہمیشہ سچی لگتی ہے چنانچہ ان کا موقف ہر جگہ سنا اور مانا جارہا تھا ۔ عمران اس وقت اپوزیشن میں تھے پاکستان نے نیٹو فورس کی سپلائی پہلے ہی سے بند کر رکھی تھی مگر امریکی حاکم بجائے معذرت کے دبائو ڈال رہے تھے ۔ عمران نے اپنے ٹائیگرز کو ساتھ لیا اور امریکی سپلائی کی یقینی بندش کیلئے سڑک پر دھرنا دیدیا ۔ جنرل آسٹن کو عمران خان کی یہ حرکت پسند نہ آئی اپنا منہ اور ہاتھ بھینچیا عمران خان کے امریکہ میں دوست تلاش کئے اور ان سے شکوہ کیا ۔ مگر عمران خان ڈٹ گئے اس سے امریکی دبائو ڈھیلا پڑگیا اور فکر کا دور شروع ہو ا۔ بہرحال صلالہ چیک پوسٹ کے واقعے کی وجہ سے پاکستانی اورا مریکی تعلقات انتہائی سرد مہری کا شکار ہو گئے ہیلری کلنٹن اس وقت امریکہ کی وزیر خارجہ تھی انھوں نے جولائی 2012ء کو پاکستانی قوم سے معذرت کر لی ۔مگر اصل ذمہ دار جنرل آسٹن نے نہ تو معذرت کی نہ ہی کسی شرمندگی کا اظہار کیاوہی جنرل لائیڈ آسٹن اب صدرجوبائیڈن کے وزیر دفاع ہیں اور عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم ۔۔دوسرا واقعہ۔2011 میں امریکن ایجنسیز کو اطلاع ملی کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں ہے اور بلوچستان کے علاقے میں رہائش پذیر ہے مگر بلوچی قوم بہت مہمان نواز اور غیرت مند ہے یہ اپنے مہمان کیلئے جان دے بھی سکتے ہیں اور لے بھی سکتے ہیں ۔ چنانچہ اسامہ بن لادن کی تلاش شروع کر دی گئی ۔کہ بلوچی قوم کا بعد میں سوچا جائے گا ۔ امریکن ایجنسیز نے ان تھک کوشش کے بعد کلیئر کردیا کہ اسامہ بلوچستان میں نہیں ہے بلکہ پاکستان میں ہی نہیں ۔ مگر اطلاع دہندہ نے وضاحت کی کہ اسامہ بلوچستان میں نہیں ہے تو غلطی لگ سکتی ہے مگر پاکستان میں نہ ہونے کی غلطی نہیں لگ سکتی ۔ جس پر امریکن ایجنسیز نے پوری سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا اور اسامہ بن لادن کی تلاش کا دائرہ وسیع کر دیا ۔اس کے دو ماہ بعد امریکن اسامہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے امریکہ نے اسامہ کو ایبٹ آباد میں تلاش کرلیا ۔ اور بغیر کسی عسکری پریشانی اور داخلی قوانین کی خلاف ورزی کے دو مئی 2011ء کوایبٹ آباد میں آپریشن کر دیا ۔ اس آپریشن میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا ۔ صدر ابامہ نے اپنے ساتھیوں سمیت وائٹ ہائوس کے آپریشن روم اس آپریشن کو لائیو دیکھا آپریشن کے تمام انتظامات انتھونی بلنکس نے کئے تھے یہ اس وقت آپریشن روم میں تھا یہ بعد ازاں صدر اوبامہ کا ڈپٹی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ رہا ۔ وہی بلنکس اب صدر جوبائیڈن کا وزیر خارجہ ہوگا یہ وہی بلنکس ہے جو پاکستان سے ماضی میں اپنے مخبر شکیل آفریدی کی واپسی کا مطالبہ کرتا رہا ہے جس کو اس وقت کے صدر آصف علی زردارای نے ٹال مٹول میں رکھااور شکیل آفریدی کو نہ چھوڑا مگر بعد میں آصف علی زرداری ووٹوں کی گنتی بھی نہ کروا سکے ۔
……………… …… (جاری) 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...