سنگا پور سے ہی سیکھ لیں

Jan 31, 2021

ملک عاصم ڈوگر …منقلب

1959میں برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کرنے والا ملک سنگا پور ایشیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہراعتبار سے سر فہرست ہے۔ پاکستان کی طرح سنگا پورمیں بھی تین بڑی مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں اور چوتھی انگریزی ہے۔ بدھ ازم سب سے بڑا مذہب ہے لیکن عیسائی ، مسلمان اور ہندو بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ساڑھے پانچ ملین سے زائد آبادی کا یہ ملک ثقافتی اعتبار سے چینی ، انڈین ، مالے اور دیگر اقوام سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک قوم بن گیا۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق سنگا پور 2020 میں کرپشن فری ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔آزادی کے بعد سے اب تک برسراقتدارجماعت پیپلز ایکشن پارٹی نے اس وقت حالات کا اندازہ لگایاتوپتہ چلا ان کے پاس ایک ایسا ملک تھا جہاں ساحلوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ قدرتی وسائل سے محروم ملک کے سامنے ایک طرف کمیونز م کا بڑھتا سیلاب تھا تو دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام کا عفریت۔ ساؤتھ ایسٹ ایشیا میں چینی کیمونزم کے بڑھتے اثرات کو روکنے کیلئے تائیوان ، ہانگ کانگ ، جنوبی کوریا اور سنگا پور کو ایشین ٹائیگرز بننے کی پیشکش کی گئی۔ سرد جنگ کے زمانے میں ان ممالک کو معاشی مراکز کا درجہ حاصل ہوا جو آج بھی برقرار ہے۔پیپلز ایکشن پارٹی نے ملک کو فری مارکیٹ اکانومی کیلئے کھول دیا۔ آج سنگاپورمیں دنیاکی7 ہزار ملٹی نیشل کمپنیوں کے مرکزی یا ریجنل دفاترموجود ہیں۔ یہ ایشیا کاواحدملک ہے جسے اکنامک ریٹنگ میں ٹرپل اے گریڈ حاصل ہے۔ سنگاپورجی ڈی پی کے اعتبار سے دنیا میں فی کس آمدنی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ سنگاپور سب سے ہنرمند انسانی وسائل رکھنے والا ملک بن گیا۔ ملک میں 91 فیصد لوگ اپنے گھر کے مالک ہیں۔ دنیا کے بہترین نظام صحت کی بدولت سنگاپور کے لوگ دنیامیں طویل العمر ہیں اور بچوں کی شرح اموات سب سے کم ہے۔انسانی ترقی میں سنگاپور دنیامیں نویں نمبر پر ہے۔ فری مارکیٹ اکانومی نے سنگاپور کو دنیا کیلئے ٹیکس ہیون ، جوئے کا مرکز اور انسانی سمگلنگ جیسی لعنتوں کا شکار بھی کیالیکن سیاسی حکومت نے صرف انسانی اورمعاشی ترقی کو ہدف بنا کر پالیسیز بنائیں۔اسکے برعکس پاکستان نے 1947 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ پاکستان بھی مختلف زبانوں اور ثقافتوں کا مجموعہ ہے۔ ہمارے پاس دینی تعلیمات میں شامل اعلیٰ اخلاق اور مساوات کا نظریہ تھا لیکن قومی سوچ سے عاری سیاسی قیادتوں نے ملک میں غیر آئینی حکومت سازی کو ترجیح دی۔ اقتدار اور دولت کی ہوس نے ملک کو اس دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ بہترین قدرتی ، زرعی ، معدنی ، آبی اور ساحلی وسائل رکھنے کے باوجود پاکستان انسانی ترقی میں 154 ویں نمبر پر ہے۔ پچھلے 73 برسوں سے مسلسل لوٹ مار کی جارہی ہے۔ سرکاری دستاویزات کیمطابق ہر برطرف کی گئی حکومت کی جڑ کرپشن تھی۔ پاکستان کی آدھی سے زائد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے۔کرونا کے باعث اس میں مزید اضافہ ہواہے۔تحریک انصاف کی موجودہ حکومت احتساب کانعرہ لگا کر اقتدارمیں آئی تھی۔ کرپشن میں کمی تو درکنار اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک جانب حکومت اورنیب دعوے دارہیں کہ سینکڑوں ارب روپے کرپٹ افراد سے وصول کئے گئے لیکن ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس کی تازہ رپورٹ کا منظر نامہ مختلف ہے۔ پاکستان 180 ممالک میں 124ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان 2019 میں 120 ویں اور 2018 میں 117 ویں نمبر پر تھا۔ کرپشن انڈیکس میں بڑھتی ریٹنگ پر  وزیراعظم کے ترجمان شہباز گل نے اسے سابق حکومت کا ڈیٹا قرار دے کر مدعا مسلم لیگ ن کی حکومت پر ڈال دیا جو کہ غیر منطقی لگتا ہے۔  آٹے ، چینی اور پٹرول سکینڈلز پر قصور وار افراد کو  تاحال سزا نہیں مل سکی۔ یہاں تک کہ اپوزیشن پر کرپشن کیسز کی بھرما ر کے باوجود کسی کو سزا نہیں ملی ۔ عام آدمی جانناچاہتا ہے کہ احتساب کس کا ہو رہا ہے ؟ آدھا وقت گزر گیا۔ وزیر اعظم عمران خان کنفیوژڈ ہیں کہ ریاست مدینہ جیسی ہو ، چین کا نظام ہو یا ملائشیا جیسا۔ ایک بات یاد رکھیں کہ نظام چاہے جو بھی ہو اس کے لئے قومی سوچ کی حامل قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ سنگاپور سے ہی سیکھ لیں۔

مزیدخبریں