27جنوری2021ء کو پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر و سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین 75سال کے ہو گئے ہیں چوہدری شجاعت حسین نے کبھی اپنی سالگرہ منائی اور نہ ہی ان چونچلوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن ملک میں ان کے چاہنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو ازخود ان کی سالگرہ کا کیک کاٹ کر چوہدری شجاعت حسین سے اپنی محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں مسلم لیگی رہنما امتیاز رانجھا ، مصطفی ، زبیر خان اور فرخ خان سالگرہ کی تقریبات منعقد کر کے ہمیں چوہدری شجاعت حسین کی ’’خبر گیری ‘‘ کی یاد دہانی کراتے رہتے ہیں ۔ چوہدری شجاعت حسین سے میری دوستی چار عشروں پر محیط ہے ۔ چوہدری ظہور الہی کی شہادت کے بعد جب انہوں نے عملاً سیاست میں حصہ لیا تو ان سے پہروں ملکی سیاست پرگفتگو ہوتی تھی۔ جب تک وہ مسلم لیگ (ن) کا حصہ رہے تو ان کی ’’بیٹھک ‘‘ انجوائے کرنے کا موقع ملتا رہا۔ جب ان کے میاں نواز شریف سے سیاسی راستے الگ ہو گئے تو بھی ہمارا ان سے رشتہ نہ ٹوٹا بلکہ وقت کے ساتھ اس تعلق میں مضبوطی میں اضافہ ہی ہوا۔ اگرچہ چوہدری شجاعت حسین کے اسلام آباد ، لاہور اور گجرات میں ’’ڈیرے ‘‘ ہیں لیکن ان کا زیادہ وقت اسلام آباد میں گذرتا تھا جب وہ اسلام آباد ہوتے تو بلوا لیتے حافظ طاہر خلیل ، عامر الیاس رانا ، طارق محمود سمیر اور میں ان کے دستر خوان کے خوشہ چیں ہوتے۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی میری تنقید کو خوش دلی سے برداشت کرتے جب سے چوہدری پرویز الٰہی نے لاہور میں ’’ڈیرہ ‘‘ لگا لیا ہے انہوں نے اسلام آباد آنا ہی چھوڑ دیا ہے جبکہ چوہدری شجاعت حسین اپنے صحت کے مسائل کی وجہ سے اسلام آباد کم کم ہی آتے ہیں جب آتے ہیں تو اس خاموشی سے چلے جاتے ہیں کہ ان کی آمد کی خبر ہی نہیں ہوتی چوہدری برادران ‘‘ کا اسلام آباد کا ’’ڈیرہ‘‘ اجڑ ہی گیا ہے بہر حال چوہدری شجاعت حسین نے اپنے اوپر بیماری کو مسلط نہیں ہونے دیا اللہ تعالی کے فضل و کرم اور اپنے عزم و حوصلہ سے بیماری کو شکست دی ہے اور گاہے بگاہے اپنے بیانات سے اہل سیاست کی رہنمائی کرتے رہتے ہیں ۔چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ محفل آرائی ہمارے لئے اعزاز کی بات تھی بزرگ صحافی سعود ساحر مرحوم کے بعد وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں واحد اخبار نویس ہوں جس کا چوہدری ظہور الٰہی ، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری سالک حسین تین نسلوں سے تعلق خاص ہے گو کہ چوہدری شجاعت حسین گجرات کی جاٹ برادری کے چشم و چراغ ہیں دوستوں کے دوست لیکن دشمنوں کے بھی دوست ہیں ۔ چوہدری اعتزاز احسن سینیٹ میں چوہدری شجاعت حسین کو طعنے دیا کرتے تھے لیکن انہوں نے ان کی اشتعال انگیزی کا کبھی برا نہیں منایا ۔ چوہدری شجاعت حسین ایک سیلف میڈ سیاست دان تھے جنہوں نے محنت ، کمٹمنٹ اور قربانی کے جذبے سے ملکی سیاست میں بلند مقام پایا ۔ چوہدری ظہور الٰہی نے اپنے پیچھے جو ’’سیاسی ورثہ ‘‘ چھوڑا ہے آج بھی ان کی اولاد اس کا پھل کھا رہی ہے ان میں جاٹ قوم کی ذہانت اور بہادری کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں لیکن اپنے دوست کو نوازنے اور دشمن کو معاف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ وہ پاکستانی سیاست میں جرات و استقامت کی علامت ہیں۔ ان جیسے معاملہ فہم اور جہاندیدہ سیاست دانوں کی ملکی سیاست میں کمی ہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو نواب احمد خان کے مقدمہ قتل پھانسی دے دی گئی تو چوہدری ظہور الٰہی شہید جنرل ضیاالحق کی کابینہ کے رکن تھے۔ جس نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کی توثیق کی تھی کہا جاتا ہے جس قلم سے جنرل ضیا ء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے حکم پر دستخط کئے تھے۔ وہ چوہدری ظہور الٰہی نے ان سے مانگ لیا تھا شاید وہ قلم آج بھی چوہدری شجاعت حسین کے پاس محفوظ ہے لیکن چوہدری برادران کی طرف سے ان کے پاس ایسے یادگار قلم کی موجودگی کی تردید کی جاتی ہے گجرات کے چوہدری اپنے دشمن کو نہیں بھلاتے وہ کار آج بھی چوہدری خاندان کے پاس محفوظ ہے جسے الذوالفقار کے دہشت گردوں نے کلاشنکوف کی گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا ۔ مجھے یاد ہے محترمہ بے نظیر بھٹو ’’ سیاسی دشمنی ‘‘ختم کرنے کے لئے ظہور پیلس گجرات آنا چاہتی تھیں۔ جہاں چوہدری شجاعت حسین نے ان کے سر پر چادر پہنانی تھی لیکن چوہدری ظہور الٰہی کی صاحبزادیاں ’’سیاسی صلح‘‘ کی راہ میں حائل ہو گئیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی ظہور پیلس میں استقبال کی تقریب منسوخ کر دی گئی ۔ چوہدری شجاعت حسین 2018ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو انہوں نے اپنے سیاسی جانشین کے لئے نشست خالی کر دی چوہدری شجاعت حسین پارلیمنٹ کی رونق ہوا کرتے تھے۔ جب تک ان کی صحت مستحکم تھی‘ وہ پارلیمنٹ میں بھی باقاعدگی سے آیا کرتے تھے۔ ان کی پارلیمنٹ میں آمد سے رونقیں لگ جایا کرتی تھیں ذوالفقار علی بھٹو سے دشمنی چوہدری ظہور الٰہی شہید ٰ کو جنرل ضیاء الحق کے قریب لے جانے کا باعث بنی بعد ازاں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی نے یہ دوستی اگلی نسل اعجاز الحق کے ساتھ نبھائی ۔ چوہدری شجاعت حسین ملکی سیاست میں ایک صاف ستھرے کردار کے مالک ہیں ان مفاہمانہ اور معاملہ فہمی کی داستانیں ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔ سیاست بڑا بے رحم کھیل ہے اقتدار کے لئے بھائی بھائی کی آنکھیں نکلوا دیتا ہے اور بیٹا باپ کو جیل خانہ میں ڈال دیتا ہے ایسا وقت بھی آیا چوہدریوں نے اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کر دیا جبکہ ’’ نواز شریف دشمنی‘‘ نے انہیں پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ بننے پر مجبور کر دیا ۔ مسلم لیگ (ق) کو’’قاتل لیگ ‘‘کا طعنہ دینے والی پیپلز پارٹی نے بھی سیاسی ضرورتوں کے تحت چوہدری برادران کو اپنے سینے سے لگا لیا۔میاں نواز شریف کی جانب سے جاتی امرا میں چوہدری برادران کے اعزاز میں دئیے جانے والے ظہرانہ کی منسوخی انکی سیاست میں ’’ٹرننگ پوائنٹ ‘‘ بن گئی ۔ چوہدری شجاعت حسین ایک وضع دار شخصیت ہیں۔ مہمان نوازی کوئی ان سے سیکھے ۔ ان کے عظیم باپ کی خوبیوں کی جھلک ان میں نظر آتی ہے ۔خو ش گفتاری اور حس مزاح ان کی شخصیت کا پرتو ہے میں نے ان کو کم و بیش 40سالوں پر محیط دوستی میں کبھی غصے میں نہیں دیکھا میں نے ان کو شریف خاندان سے شدید سیاسی اختلافات کے با وجود ہمیشہ ان کے بارے مثبت انداز میں گفتگو کرتے دیکھا ہے۔ میں نے چوہدری پرویز الٰہی جیسا ’’ صحافی دوست‘‘ سیاست دان بھی کم ہی دیکھا ہے جس نے اپنے دور اقتدار میں پنجاب ہائوسنگ فائونڈیشن قائم کر کے بلا امتیاز راولپنڈی ، لاہور اور ملتان کے پریس کلبوں کے ارکان کو سر چھپانے کی جگہ دی اسے چوہدری پرویز الٰہی کی خوبی کہیں یا کمزوری ۔ وہ جسے اپنا دوست بناتے ہیں پھر وہ اس کی اپنے دشمن سے دوستی برداشت نہیں کرتے وہ نواز شریف سے دوستی رکھنے والے اخبار نویس دوستوں سے برملا یہ بات کہہ دیتے کہ ’’ مجھ سے نواز شریف بارے کوئی بات کہے تو میں اس سے 6دن تک بات نہیں کرتا‘‘ جب 12اکتوبر1999ء کے ’’پرویزی مارشل لائ‘‘ میں ماڈل ٹائون لاہور میں شریف خاندان کی خواتین نے اپنی گرفتاری کا خطرہ محسوس کیا تو انہوں نے روزنامہ نوائے وقت کے معمار جناب مجید نظامی کی رہائش گاہ پر پنا ہ لے لی چوہدری شجاعت حسین کو معلوم ہوا تو وہ انہیں لینے کے لئے جناب مجید نظامی کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے او یہ کہہ کر اپنے گھر لے گئے ’’ دیکھتے ہیں ہمار ی ان مائوں بہنوں اور بیٹیوں کو کون گرفتا ر کرتا ہے ؟‘‘ میاںنواز شریف کی گرفتاری کے ابتدائی دنوں میں بیگم کلثوم نواز کی اسلام آباد آمد پر چوہدری برادران کی رہائش گاہ کو ان کے لئے خالی کر دی جاتا تھا پھر جنرل پرویز مشرف کے جبر نے دونوں خاندانوں کے درمیان ایسے فاصلے پیدا کئے جو پلوں کے نیچے سے اتنا پانی بہہ جانے کے باوجود آج بھی ختم نہیں ہو سکے ۔ مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ(ق) پچھلے دو عشروں سے ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہیں اور اس کا فائدہ ملکی سیاست میں نئے آنے والے اٹھا کر اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ چوہدری ظہور الٰہی شہید نے ملکی سیاست میں شاندار روایات قائم کی ہیں ان کا وسیع دسترخوان تھا وہ ایک غریب پرور سیاست دان تھے۔ غریب آدمی کی مدد کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے۔ ان کے سیاسی وارث چوہدری شجاعت حسین نے اس روایت کو قائم رکھا ہے ۔ چوہدری شجاعت حسین کی خود نوشت 328صفحات پر مشتمل ہے جو 2008ء تک کے واقعات پر محیط ہے ۔انہوں نے کتاب کے اختتام پر 2008ء کے بعد کے واقعات کو بھی کتاب میں شامل کرنے کا وعدہ کیا ہے مجھے امید ہے جب وہ 2008ء کے بعد کے واقعات کو قلمبند کریں گے تو ان سوالات کا جواب بھی دیں گے جو قاری ان سے جاننا چاتا ہے چوہدری شجاعت حسین کا پچھلی پانچ دہائیوں سے ملکی سیاست میں ایک کردار ہے ان کا شمار پاکستان کے ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جن کے حوالے سے سیاست میں ’’کہاوتیں‘‘ مشہور ہیں جنہوں نے نئے ’’ سیاسی محاورے‘‘ متعارف کرائے مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کا شمار پاکستان کے چند چوٹی کے سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی سیاسی زندگی میں وہ سب کچھ حاصل کر لیا جو ایک سیاسی رہنما کارکن کی خواہش ہوتی ہے۔۔ چوہدری شجاعت حسین دھیمے مزاج کے سیاست دان ہیں۔جارحیت انھیں چھو کر بھی نہیں گزری۔ چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں ’’نواز شریف کی مسلسل عہد شکنی‘‘ کے نام سے ایک باب تحریر کیا ہے جو 1985 تا 1988 تک محیط ہے۔ انہوں نے ایٹمی پروگرام کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر کی امریکی حوالگی کو نہ صرف رکوایا بلکہ اپنی بصیرت سے ایٹمی پروگرام کو رول بیک ہونے سے بھی بچا لیا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آپ نے امریکہ اور جنرل پرویز مشرف کی خواہش پر عراق میں فوج بھجوانے کی راہ میں روڑے اٹکائے بلکہ اس معاملہ کو پارلیمان میں لا کر ہمیشہ کے لیے راستہ ہی مسدود کردیا۔ چوہدری شجاعت حسین نے ایوان صدر میں امریکی صدر کے اعزاز میں دی جانے والی ضیافت میں شرکت سے معذرت کر لی ، وجہ صرف اتنی تھی بطور پارٹی سربراہ اور پالیمانی لیڈر کہ انکی نشست امریکی صدر کے برابر میں تھی اور وہ مسلمانوں کے قاتل امریکی صدر کے پاس بیٹھنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے نکالنے پر مزاحم ہوئے اور لال مسجد میں آپریشن اور اکبر بگٹی قتل پر کئی روز رنجیدہ رہے۔
ہو سکتا ہے کچھ لوگ انہیں نواز شریف سے بے وفائی کا طعنہ دیں لیکن وہ ان کی اس بات کا کیا جواب دیں گے کہ نواز شریف کو ہم نے نہیں چھوڑا ،وہ چھوڑ کے چلے گئے ، وہ کہتے ہیں کہ " وہ ڈیل کرکے جدہ چلے گئے ، ہم ڈیل کرکے اقتدار میں آگئے " ۔