کرپشن تو زندگی کی ایک قدر بن چکی ہے 

اپریل 1993 میں جب نواز شریف حکومت کو اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان نے چلتا کیا تو آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی کے تحت تین ماہ میں نئے انتخابات کرانا ضروری تھے۔ نواز شریف کو پہلی حکومت کو اقتدار سے الگ کرنے کی وجہ اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان اور وزیراعظم کے درمیان تنازعہ تھا۔ اسٹبلشمنٹ بھی نواز شریف سے ناراض تھی کیونکہ انھوں نے اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل وحید کاکڑ کی تقرری پر صدر سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد عبوری حکومت کی سربراہی عالمی بینک کے ایک ایگزیکٹیو ڈائریکٹر معین قریشی کے حصہ میں آئی۔ انھیں واشنگٹن سے بلا کر عبوری حکومت کا سربراہ بنایا گیا۔ معین قریشی ایوب دور میں پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن میں ایک افسر تھے جو بعد میں عالمی بینک میں چلے گئے۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ 
معین قریشی جب ملک میں نئے انتخابات کرانے کے بعد واپس امریکہ جا رہے تھے تو انھوں نے چند صحافیوں کو دوپہر کے کھانے کی دعوت دی۔ یہ دعوت اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں دی گئی تھی۔ راقم بھی اس دعوت میں موجود تھا۔ باتوں باتوں میں جب معین قریشی سے پوچھا گیا کہ ان کے دور کی بیوروکریسی اور اس دور یعنی 90 کی دہائی کی بیوروکریسی میں کیا فرق ہے تو معین قریشی نے جواب دیا کہ ساٹھ کی دہائی میں جب ہم سول آفیسر کام کر رہے تھے تو بد عنوان بیورو کریٹس سے دور رہنے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ معین قریشی نے یہ بھی بتایا کہ اس دور میں سول سروس میں ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپ، وزارت خارجہ اور پولیس سروس نوجوان سی ایس پی افسرون کیلئے ترجیحات میں شامل تھی لیکن اب یعنی تیس سال بعد جب میں وطن واپس آیا تو سول افسروں کی ترجیحات میں انکم ٹیکس، ایکسائز و کسٹم کی سروس سرفہرست ہے کیونکہ اس سروس میں مال بنانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ 
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی چار درجہ بڑھ گئی ہے۔ حالانکہ اس وقت وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں بدعنوانی کیخلاف ایک زبردست مہم چلی ہوئی ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف، پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری جو سابق صدر بھی ہیں، کئی وفاقی وزراء اور ہم شخصیات پر بدعنوانی کے الزامات میں نیب ریفرنس دائر کر چکا ہے اور ان کیخلاف مقدمات کی سماعت بھی ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود یہ تاثر کہ پاکستان میں بدعنوانی بڑھ رہی ہے بظاہر قابل قبول نظر نہیں آتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اپنے اختیارات کو ناجائز طور پر استعمال کر کے پیسے بنانے کا رجحان اتنا عام ہو چکا ہے کہ اس پر قابو پانا بہت دشوار ہے۔ کچھ عرصہ قبل بین الاقوامی اداروں نے جن میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل بھی شامل ہے، پاکستان میں بد عنوانی کے حوالے سے جو سروے کیا تھا اس میں پولیس کو سب سے کرپٹ محکمہ قرار دیا گیا تھا۔ اس سروے میں عدلیہ کو بھی اچھے الفاظ میں نہیں یاد کیا گیا تھا۔ اسی طرح کئی سرکاری محکموں میں پھیلتی ہوئی بدعنوانی کا تذکرہ موجود تھا۔ پچھلی دو دہائیوں میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اختیارات کے ناجائز استعمال سے پیسہ بنانا کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی۔ عوام پٹواریوں، پولیس والوں، محکمہ صحت کے اہلکاروں، بجلی اور گیس کے محکموں میں کام کرنے والے افسروں اور اہلکاروں غرض کہ عوام سے جن جن محکموں کا واسطہ پڑتا ہے ان کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ وہ وہاں کرپشن عروج پر ہے۔ یہ کہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ کون سا محکمہ کم کرپٹ ہے اور کون سا زیادہ۔ یہ درست ہے کہ نیب سرکاری، اہلکاروں، سیاست دانوں اور بعض تاجروں کے خلاف بھی بد عنوانی اور لوٹ مار کے ریفرنسنز دائر کر رہا ہے۔ اس کے باوجود عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ بد عنوانی ختم نہیں ہوئی بلکہ بڑھ گئی ہے۔
اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جو سرکاری افسر یا اہلکار ایمانداری سے کام کرتا ہے اس کو ’’سادہ لوح‘‘ اور احمق سمجھا جاتا ہے۔ عام خیال یہ کیا جاتا ہے کہ اس شخص میں یہ صلاحیت Guts نہیں ہیں کہ وہ اپنے اور اپنے خاندان والوں کیلئے کچھ کر سکے۔ اب تو یہ مثالیں دی جاتی ہیں کہ فلاں کلرک نے دو کوٹھیاں بنا لی ہیں اور شاندار کاریں بھی اسکے پاس ہیں۔ اسی طرح چھوٹے چھوٹے اہلکاروں کے بارے میں گلی کوچوں میں لوگ جانتے ہیں کہ وہ کس طرح سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے سرکاری افسروں کی تو بات ہی نرالی ہے اور سیاسی لیڈرشپ کے کیا کہنے۔ لوگ یہ مثال دیتے ہیں کہ فلاں شخص چار سال کیلئے کونسلر رہا اور وہ کروڑ پتی بن گیا۔ اسی طرح صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان اور دوسرے سیاسی لوگ جو حکومتی عہدوں پر رہتے ہیں، ان کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ وہ اپنی سات نسلوں کیلئے سرمایہ اور اثاثے اکٹھے کر چکے ہیں۔ ان حالات میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل ہو یا کوئی اور ادارہ، اپنے جائزوں میں اسی نتیجے پر پہنچا ہو گا کہ پاکستان میں بد عنوانی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ یہ زندگی کا معمول بن چکی ہے۔ اسے کوئی نا پسندیدہ عمل نہیں سمجھا جاتا بلکہ ناجائز طور پر پیسہ بنانا اور اس سے ملک کے اندر اور ملک کے باہر اثاثے اور جائیدادیں بنانا قابل تحسین قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے شخص کو جو کسی معمولی عہدے پر ہو اور کروڑوں اور اربوں روپے کما لے اسکے ہنر کی تعریف کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ بہت ہی سمارٹ شخص ہے جس نے مختصر عرصہ میں اپنے خاندان کو فرش سے عرش تک پہنچا دیا۔ 
عمران خان کی حکومت نے بد عنوانی کے خاتمے کیلئے بھرپور کوششیں کی ہیں۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ کرپشن کو زندگی کا ایک حصہ بنا لیا گیا ہے اور لوگ اسے زندگی کی ایک قدر کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ اس لئے اس سے جان چھڑانا خاصا مشکل کام ہے۔ البتہ کچھ سوچنے والوں اور مستقبل کی فکر کرنے والوں کا خیال ہے کہ پاکستان سے بد عنوانی صرف اور صرف اس طرح کے انقلاب سے ختم ہو سکتی ہے جس طرح کے انقلاب پچھلی صدی میں روس، چین اور ایران میں آئے جن میں چُن چُن کر بد عنوان لوگوں کو سمری ٹرائلز کے ذریعے سزائے موت دی گئی یا ٹرائل کے بغیر بھی ان کا کام تمام کر دیا گیا۔ بہت سے لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ لوٹ مار بد عنوانی، ملاوٹ اور اس نوع کی برائیوں کا خاتمہ موجودہ جمہوری نظام میں ممکن نہیں ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن