کالم نگار کے گذشتہ کالم کا آخری پیرا شائع نہ ہو سکالہذا کالم نامکمل اور بے معنی سا ہوگیا۔ وہ کالم حبیب اکرم کی کتاب ’’ہم ، طالبان اور افغانستان‘‘ کے بارے میں تھا۔ حاصل کالم بھی آخری پیرا تھا۔ سو اب وہ آخری پیرا پڑھ لیں جو شائع ہونے سے رہ گیا۔ ’’وہیں کہیں طالبان کی موجودہ حکومت سے ایک وزیرمیرے آ شنا نکل آئے۔ وہ مجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے ۔ تم سب لوگ سمجھتے ہو کہ طالبان نے امریکہ کو شکست دے دی ۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہم جال میں پھنس گئے ہیں۔ دفتر ہیں تو عملے سے خالی ۔ خزانہ ہے تو پیسوں سے خالی ۔ امدادی اداروں کے وعدے ہیں تو عمل سے خالی ۔ ہمارے خلاف اس سے بڑی سازش ہو ہی نہیں سکتی ۔ ہم میدان میں آتش و آہن سے لڑنے والے پیسوں کی لڑائی میں مارے جائیں گے ۔ میں نے اسے کہا کہ جب پاکستان بنا تھا تو اس وقت نواب آف بہاولپور نے قائد اعظمؒ کو سرکاری ملازمین کی چھ ماہ کی تنخواہ ادا کرنے کے لئے رقم اپنی جیب سے دے دی تھی ۔ آپ بھی کوئی ایسا بندوبست کر دیتے ۔ میری بات سن کر وہ بولے۔ نہ ہی ہمارے پاس کوئی نواب آف بہاولپور ہے اور نہ ہی قائد اعظم۔ یہ ہے آج کے افغانستان کی سرسری سی تصویر ۔ پوری تصویر آپ کو کتاب میں سے ملے گی ‘‘۔ بات ختم ہوئی ۔ گذشتہ کالم مکمل ہو گیا۔ اب کالم آگے بڑھتا ہے ۔ قائد اعظمؒ نام تھا دیانت ، اہلیت اور انتھک محنت کا۔ اسی طرح نواب آف بہاولپور نام تھا ایثار اور خدمت کا۔ ہمارے آج کے نوجوانوں نے قائد اعظمؒ کا پاکستان نہ ہی دیکھا ہے اور نہ ہی وہ اس کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ قائد اعظمؒ کے پاکستان کی عمر محض گیارہ برس (1947ء سے 1958ء ) تھی کہ وہ اغواہو گیا۔ وہ بیچارہ پچھلے تریسٹھ چونسٹھ برس سے سیاسی ، غیر سیاسی اور مذہبی اقتدار پرستوں کے ذاتی مفادات اور باہمی گٹھ جوڑ کا یرغمال ہے ۔ قائد اعظمؒ کا پاکستان ایک فلاحی ریاست تھی ۔ 1956ء کے آئین میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے باہمی اختلافات حل کئے جا چکے تھے ۔ ملک کے دونوں حصے پوری یکجہتی سے ہمقدم تھے ۔ آج کا پاکستانی نوجوان یہ سب کچھ نہیں جانتا۔ اسے دانستہ لا علم رکھا گیا ہے ۔ اغوا کرنے والے نہیں چاہتے کہ اغواہونے والے کی پہچان ہو سکے یا اس کا ذکر ہو۔ کالم نگار نون لیگی کرپشن سے آگاہ ہے ۔ اس کرپشن کا دفاع اس سے ممکن نہیں۔ پھر اسے آصف زرداری کا محترمہ بینظیر بھٹو سے یہ کہنا بھی یاد ہے کہ اگر ہم نے پیسے نہ کمائے تو میدان سیاست میں نون لیگ سے مات کھا جائیں گے ۔اسے مالم جبہ ، چینی گندم اور سیمنٹ کی ساری کہانیاں بھی بھولی نہیں۔ وہ سیاستدانوں کی ساری کارستانیوں سے آگاہ ہے ۔ اسے یہ بھی پتہ ہے کہ آجکل ڈپٹی کمشنر کیسے لگائے جاتے ہیں اورزرخیز عہدوں پر تقرری کیسے کی جاتی ہے ۔ لیکن کیا کیا جائے ، اب تک انسان جمہوریت سے بہتر کوئی نظام حکومت تلاش نہیں کر پایا اور جمہوریت میں حکومت کی باگ ڈور سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے ۔
آج ہم دنیا میں جمہوریت کی ایک نئی قسم دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ روحانی جمہوریت ہے ۔ اللہ جانے روحانیت میں کس قسم کی اور کتنی طاقت ہے ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہماری امت مسلمہ روحانیت کے نام پر صدیوں سے مسلسل بیوقوف بنائی جاتی رہی ہے ۔ کبھی امت کے اندر سے کذاب ابھرے اور کبھی باہر سے آئے ۔ پھر وقت کے ساتھ وہ کچھ سے کچھ ثابت ہوئے ۔ کبھی نقلی پیر و مرشد اور کبھی مصنوعی تصوف کے شعبدہ باز اور کبھی راہ طریقت کے خود ساختہ داعی اپنا منافع بخش کاروبار چمکاتے رہے ۔ آج ہماری روحانی جمہوریت کرپشن میں سولہ درجے اور آگے بڑھ گئی ہے ۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ یورپ کی غیر روحانی جمہوریت میں کرپشن نام کو بھی نہیں۔
؎یہ حکمتِ ملکوتی یہ عالمِ لاہوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
1958ء میں جمہوریت پر شب خوں مارا گیا۔ لیکن 1970ء تک جمہوریت میں زندگی کی رمق موجود تھی ۔ کالم نگار نے وہ الیکشن دیکھا ہے ۔ اس زمانہ میں فوٹو اسٹیٹ مشین ابھی میسر نہیں آئی تھی ۔ سیاسی جماعتوں کے دفتروں میں بیٹھے طالب علم ہاتھوں سے ووٹروں کی فہرست تیار کرتے ۔مسلم لیگوں کو تنخواہ دار اور پیپلز پارٹی کو بے تنخواہ کارکن میسر تھے ۔ مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی ، کپڑا اور مکان۔ جاگیرداری ٹھاہ اور سرمایہ داری ٹھاہ ۔ یہ سبھی نعرے اسی زمانہ میں سننے میں آئے ۔ پھر یہ نعرے کسی جماعت کا اثاثہ نہ رہے ۔ آج لفظ’ منشور‘ ہماری سیاست سے خارج ہو چکا ہے ۔ نواز شریف لورز ، عمران خان لورز اور بلاول لورز ، یہ نئے الفاظ ہیں جو ہماری سیاسی لغت میں شامل ہو چکے ہیں۔ اپنے سیاسی قائدین سے محبت ، انسانی زندگی کے مسائل احتیاجوں اور ضرورتوں کا حل نہیں۔ یہ نکتہ ہماری سیاست اللہ جانے کب سمجھے گی۔ کالم کے شروع میں ایک طالبانی وزیر کی زبانی افغانستان کے موجودہ حالات موجود ہیں۔بیورو کریٹ ، ادیب ، مسعود مفتی کے لفظوں میں پاکستان کے حالات بھی پڑھ لیں۔ ’’بے شمار لوگوں کا یک رنگا ہجوم جو بے چہرہ ہی نہیں ، بے آواز اور بے سمت بھی ہے ۔ بے تدبیر اور بے عمل بھی ہے ۔ اجتماعی طور پر سب کی حسیات کسی مسیحا یا مصلح کے انتظار میں فکر و عمل کو معطل کر کے صرف دعائوں میں ڈوبی ہوئی ہے ‘‘۔