دھند چھٹ رہی ہے

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے پاکستان سپر لیگ 7 کے آغاز سے قبل ٹورنامنٹ میں شامل تمام ٹیموں کیلئے نیک خواہشات کا اظہارکرتے ہوئے سیکیورٹی اداروں کو لاہور میں ہونے والے میچزکیلئے بہترین انتظامات کرنے اور سوفیصد فول پروف سکیورٹی یقینی بنانے کی حکمت عملی اپنانے کا حکم جاری کیا ہے ۔عین اس وقت جب کراچی میں پی ایس ایل کا انعقاد ہونے والا تھا پتہ نہیں کس کے اشارے پر کس کو خوش کرنے کے لیے کراچی کی سڑکوں پر لوگوں کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ۔میرے خیال میں پولیس نے بروقت اور موثر حکمت عملی سے توڑ پھوڑ کرنے والوں کو پیغام دے دیا ہے کہ یہ نیا پاکستان ہے یہاں کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے سڑکیں بند کرے۔جلاو گھیراو کرے اور بازار بند کرانے کی کوشش کرے۔اب سے کچھ ہفتوں بعد ہی آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم دو عشروں بعد پاکستان میں مکمل سریز کھیلنے آرہی ہے ۔نائن الیون کے بعد سے آسٹریلیا ہی وہ واحد ملک ہے جس نے اپنے کھلاڑیوں کو پاکستان کے دورے سے روکے رکھا تھا۔لیکن اب جبکہ ملک میں بحالی امن کا مشن مکمل ہو چکا ہے تو آسٹریلیا کی مکمل ٹیم پاکستان آنے کے لیے تیار بتائی جارہی ہے ۔آسٹریلین ٹیم کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ مضبوط حریف کے خلاف کھیل کے خوش ہوتے ہیں پاکستان کرکٹ ٹیم نے پچھلے کچھ عرصے سے عالمی کرکٹ میں بہت نمایاں مقام حاصل کیا ہوا ہے اس لئے چلتے اس سیریز میں اچھے میچز ہونے کی امید کی جاسکتی ہے ۔کرکٹ کو صرف ایک کھیل نہ سمجھا جائے بلکہ اسے باقی سب کھیلوں کے احیا کے طور دیکھا جانا چاہیے ۔آج جن ملکوں کو ہم ترقی یافتہ مانتے ہیں اولمپکس میں انہی ملکوں کے جوان زیادہ ایوارڈز جیتتے نظر آتے ہیں۔یعنی اگر ہمارے ملک میں کھیلوں کے میدان آباد ہونے شروع ہو جائیں تو آنے والے کچھ سالوں میں ہمارے نوجوان مثبت سمت میں سفر کرتے نظر آسکتے ہیں ۔کھیل کے میدان آباد ہونے سے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا بھر پور موقع ملتا ہے ۔جو انہیں عملی زندگی میں جیت ہار،کامیابی ناکامی اور اچھا شہری بننے کا سبق دیتا ہے ۔وزیراعلیٰ عثمان بزدار بلکل درست کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے پاس اب عوام کے پاس جانے کے لیے کوئی واضع حکمت عملی  نہیں ہے ۔اندرونی انتشار کا شکار نون لیگ اپنے ہی راہنماوں کے بیانات کی وجہ سے مزید الجھنوں کا شکار ہوتی چلی جارہی ہے ۔پیپلز پارٹی کے لیے اگلے انتخابات میں سندھ سے ووٹ حاصل کرنا مشکل ہوتا نظر آرہا ہے ۔آج میڈیا کا دور ہے اب لوگوں کو محرومیوں کا شکار رکھ کے ووٹ حاصل کرنا ممکن نہیں رہا ہے ۔سندھ کے لوگ جب سماجی رابطوں پہ پنجاب کی ترقی دیکھتے ہوں گے تو ان کے خیال میں اپنے راہنماوں کی کارکردگی بارے سوالات اُٹھنا لازمی امر ہے ۔ایسے میں صرف نعروں سے ،تقریوں سے اور بھٹو کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والو ںکو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔بلاول بھٹو جب سندھ میں ہوتے ہیں تو سندھ دھرتی کے نام پرلوگوں کو ورغلاتے ہیں اور جب پنجاب آتے ہیں تو پنجا ب کی تقسیم کے شوشے چھوڑتے ہوئے خود کو لیڈر کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں ۔پنجاب کے لوگ ہمیشہ سے باشعور رہے ہیں ۔اس لیے امید یہی ہے کہ وہ کسی شعبدہ باز کی باتوں میں نہیں آئیں گے اور ووٹ کام کرنے والے لوگو ںکو ہی دیں گے ۔
پچھلے کچھ عرصے سے دیکھا جائے تو ملک میں اپوزیشن جماعتوں میں استعفے دینے کی ہمت ہے نہ وہ مارچ کرسکتے ہیں۔ اس لیے عوام استعفے اور لانگ مارچ کی باتیں سن کر لوگ تنگ آچکے ہیں۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے پنجاب میں مسلسل بارشیں ہورہی ہیں ۔بارش کو رب کی رحمت کہا جاتا ہے ۔ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ جب بارش ہو تو رب سے خاص طور پردعا مانگنی چاہیے ۔چند دن پہلے گاوں گیا تو شدید بارش کی وجہ سے جب گھر میں سارا دن رکے رہنا پڑا تو والدہ محترمہ کہنے لگیں ،انور! یہ بارش کسانوں کے لیے ایک نعمت کی طرح ہے ۔ان دنوں جتنی بارش ہوگی گندم کی فصل اتنی ہی اچھی ہوگی ۔واقعی بارش ایک نعمت کی طرح برسی ہے اب بارشو ںنے پنجاب کی فضاوں پر چھائی فضائی آلودگی کو ختم نہیں تو بہت حد تک کم ضرور کردیا ہے ۔اب ہر طرف فضا نکھری نکھری اُجلی اُجلی نظر آرہی ہے ۔دھند چھٹ رہی ہے مطلع صاف ہورہا ہے،لوگوں کے چہروں پر رونقیں بحال ہورہی ہیں۔ملکی میدان آباد ہو رہے ہیں ۔دنیا میں پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کیا جارہا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن