ایک سکول کا وزٹ کرتے ہوئے ایک والدہ سے ملاقات ہوئی تو اس نے بڑے افسردہ انداز میں اپنے بچوں کی ایک شکایت لگائی کہ میڈم سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں یہ ہلتے ہی نہیں ہیں۔ میں نے اور ان کے ابو نے ان کے لیے گھر کے صحن میں بیڈ منٹن کورٹ، باسکٹ بال ، کرکٹ اور ہاکی سمیت مختلف کھیلوں کا سامان لا کر رکھا ہے مگر یہ بچے ٹس سے مس نہیں ہوتے سکول سے آکر کھانا کھا کر یا تو سوجاتے ہیں یا پھر موبائیل لے کر بیٹھ جاتے ہیں ، تھوڑی دیر سونے کے بعد جب اٹھتے ہیں تو پھر پڑھائی سے فارغ ہوکر موبائیل لے کر بیٹھ جاتے ہیں موبائیل سے ہٹائوں تو ٹی وی لگا لیتے ہیں لیکن مجال ہے جو کمرے سے کچن تک اٹھ کر پانی بھی پینے جائیں۔ ان کو گاڑی پر آئوٹنگ کے لیے لے کر جاو تو سارے راستے ہینڈ فری لگا کر کچھ سنتے رہتے ہیں۔ کسی خالہ یا پھپھو کے گھر لے کر جائو تو سلام کرتے ہی اپنے کزن کے ساتھ موبائیل پر لڈو سٹار یا پب جی سمیت کوئی بھی گروپ گیم کھیلنے لگ جاتے ہیں۔ سب رشتہ داروں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھتے ہیں۔ گھر واپس آ کر روبوٹ کی طرح کمرے میں جاتے ہیں اور دھڑام سے بیڈ پر گر جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان سے لاکھ کچھ پوچھو جواب ہوں یا ہاں میں دے کر پھر موبائیل میں کوئی ڈرامہ یا سیزن دیکھنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ سارا دن میں بمشکل مجھ سے تین یا چار بار ہم کلام ہوتے ہیں وہ بھی ضرورت کے تحت۔ وہ عورت روہانسی ہوچکی تھی اور میں یہ سوچ رہی تھی کہ یہ اس عورت کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ جس سے بھی بات کریں آپ کو کم و بیش ایک ہی سٹوری سننے کو ملے گی۔ ہم سب اسی طرح کی صورت حال سے گزر بھی رہے ہیں اور خود بھی یہی کچھ کرتے ہیں اپنے بچوں کے ساتھ۔ایک ہی کمرے میں رہتے ہوئے باپ اپنے موبائل پر فیس بک دیکھنے میں مصروف ہے۔ماں اپنے کسی رشتہ دار سے فون پر گپیں لگا رہی ہے، تو بچے بھی اپنے لیے موبائیل پر کوئی نہ کوئی مصروفیت ڈھونڈ لیتے ہیں۔
سکول میں موجود اس ماں کی گفتگو سن کرمیرا دھیان ایک دم ماضی میں چلا گیا مجھے اپنے بچپن کی کچھ باتیں یاد آگئیں۔ جب بھائی سڑک پر تیز دھوپ اور سرد راتوں میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے جب ہم سب کزن مل کر روز نہر میں نہانے جایا کرتے تھے جب ہماری سب سے بڑی تفریح شام کو پارک میں جانا اور پینگ لینا ہوتا تھا۔ جب ہم آئس کریم والے کا میوزک سنتے ہی بھاگ کرامی کے پاس جاتے اور پیسے مانگتے، پھر بھاگ کر گلی کے نکڑ پربچوں کے ہجوم میں گھرے آئس کریم والے انکل سے مزے مزے کی آئس کریم لیتے اسی ساری تگ و دو میں سب بچے پسینے سے شرابور ہوجاتے تھے۔ کبھی کسی کے اندر کوئی سستی نہیں دیکھی جاتی تھی ، ناشتے کرتے سب اپنے اپنے کام کاج میں لگ جاتے ، ادھر بچے بستے کندھوں پر لٹکائے سکول کی طرف رواں دواں ہوتے ، ساتھ ہی مائیں گلی میں سبزی والے سے بھائو تائو کرتی نظر آتیں۔ کھانے پینے میں کوئی نخرے نہیں ہوتے تھے۔ جو پکتا تھا سب وہی کھاتے تھے اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ اعتراض کراٹھے، کھانے کے دوران جوپکا ہوتا وہی ایک آپشن ہوتی تھی یا پھر دوسری آپشن اماں کی چپل ہوتی تھی۔کچھ بچے تو اتنے لفنڈر ہوگئے تھے کہ سارا سارا دن گلی میں کھیلتے رہتے تھے، ایک بار ہمارے سکول میں ایک اماں اپنے بیٹے کی شکایت لے کر آئی تھی کہ ماسٹر صاحب کوئی حل بتائیں میں بہت پریشان ہوں میرے بچے گھر میں ٹکتے نہیں ہیں۔ سکول سے آکر ہوم ورک کرکے سارا سارا دن سڑکوں پر کھیلتے رہتے ہیں یا پھر چھت پر پتنگ اڑاتے رہتے ہیں کوئی طریقہ بتائیں کہ یہ سکون سے اپنے بستر میں رہیں اور ٹک کر اپنے گھر میں بیٹھیں۔ میں بہت پریشان ہوں کاش کوئی ایسی چیز ہو جو کسی طرح ان کو گھر میں ٹکنے پر مجبور کر دے۔
آج والی ماں کا شکوہ سن کر مجھے بیس سال پرانی ماں یاد آگئی آج کے اس مشینی دور میں برائلر کھا کھا کر ہماری پوری نسل ہی کام چور ہو گئی ہے ان سے کسی قسم کے انقلاب کی توقع کرنا خام خیالی ہے ہاں البتہ ایک مسنون دعا ہے جس کے پڑھنے سے شائد ان کے جسم اور دماغ سے یہ کاہلی دور ہوسکتی ہے۔
یا اللہ ! میں فکر اور غم سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں اور عاجزی اور سستی سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں اور بزدلی اور بخل سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں اور قرض کے غالب آجانے اور لوگوں کے مسلط ہوجانے سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔