درویش کے مزار پر کسی نے خود کو فنا دیکھا، کسی نے بقا ، کسی نے رقص دیکھا،کسی نے گناہ ، کسی نے ثواب دیکھا الغرض جس کا جو اپنا حال تھا اس نے وہی حال دیکھا ایسی ہی صورت حال وکلا کی بار کی ہے۔جس حال میں وکلاججز کو دیکھتے ہیں ان کے فیصلوں کودیکھتے ہیں ۔ججز کو بنتا دیکھتے ہیں الغرض جس کا جو حال ہے ویسا ہی حال دیکھتے ہیں ۔ پہلی جج محترمہ عائشہ اے ملک سپریم کورٹ کی جج بن چکی ہیں ۔ اس سے قبل ہائی کورٹ میں خواتین ججز تو تھیں ہی لیکن پاکستانی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی خاتون جج بننے کا اعزاز عائشہ ملک کو حاصل ہوا ۔ ان کا کیس پہلی بارسپریم کورٹ جوڈیشیل کمیشن میں لایا گیا تھا اس وقت مجاز اٹھارٹی میں میڈم کو ووٹ نہ پڑے اور جج نہ بن سکیں ۔دوبارہ اس پر انہیں جج بنانے کی کوشش کی تو کیس دوبارہ جوڈیشیل کمیشن کو بھیجا گیا اس بار ان کے پاس نمبر پورے تھے اور محترمہ جج بن گئی۔ وہ چوبیس جنوری کوحلف بھی لے چکی ہیں ۔ میڈم کے سپریم کورٹ کا جج بن جانے سے نئی تاریخ تو رقم ہو چکی ہے۔ مگر ایسا کرنے سے ایک ڈبیٹ نے بھی جنم لے لیا ہے ۔ججز کے طریقہ کار پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں ۔دنیا کو یہ بتانا ہی مقصود تھا کہ پاکستانی سپریم کورٹ میں خاتون جج بھی ہے تو پشاور ئی کورٹ کی سینئر جج مسرت ہلالی کو سپریم کورٹ کا جج بنا دیتے جو ان سے سینئربھی تھیں مگر ایسا نہیں کیا گیا ۔اب جوڈیشیل کمیشن کے فیصلے کے بعد دوگروپ تشکیل پا چکے ہیں۔ایک گروپ جیت ہوئی ہے اور دوسرا ہار چکا ہے ۔ جب کہ معاملہ ہار جیت کا نہیں تھا ۔قانون اور آئین کی بالادستی کا تھا ۔دونوں گروپوں میں نامور شخصیات فیصلہ کرنے والوں میں شامل تھیں۔سب جانتے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد دو فروری کو ریٹائرڈ ہو رہے ہیں اور اسی روزنئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے ۔ جوڈیشیل کمیشن نے اس واقعہ سے بار اور بنچ میں خلیج پیدا ہو چکی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان بار کونسل، باقی بار کونسلوں اور بارایسو ایشین نے اس پر اتفاق کیا تھا کہ جس طرح سے محترمہ کی سپریم کورٹ میں تقرری کی گئی ہے ۔ ایسا کرنے پر جانے والے چیف جسٹس کے گلزار احمد کے اعزاز میں کوئی الواعی پارٹی نہیں دی جائے گی مگر اب یہ سننے میں آیا ہے ۔ جیتنے والے گروپ نے الواعی پارٹی سپریم کورٹ بار کی جانب سے فیصلہ اپنے حق میں کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ کہا جاتا ہے اقتدار اور پیسہ دو ایسی چیزیں ہیں جو فیصلے بدل سکتے ہیں ۔ اب وکلا اپنے نمائدوں کو دیکھ سکتے ہیں : شعیب بن عزیز یاد آگئے
کیوں اداس بیٹھے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
سب جانتے ہیں کہ جج بنے کے لئے لائق وکلا کی ضرورت نہیں اچھا جج وہ کہلاتا ہے جو خدا کے قریب ہو کر انصاف پر مبنی فیصلے کرے ۔جسے فیصلے کرتے وقت پتہ ہو کہ اس کا حساب مجھ سے بھی لیا جائے گا ۔ اب تو ہر فیلڈ کا ہی پورا حال ہے ۔ کسی نے قبرستان کے گورکن پر خوبصورت تبصرہ کچھ یوں کیاکہ اس کا والد اس سے اچھا تھا وہ صرف کفن اتار کر فروخت کیاکرتا تھا یہ تو کفن کے ساتھ مردے کی بے حرمتی بھی کرتا ہے۔ ایسا ہی حال ہمارے ہر شعبے کا دکھائی دیتا ہے ۔ ہماری سوسائٹی میں کسی وکیل کا جج بننا کوئی آسان نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ ہمارے بہت سے ساتھی وکلاجج تو بن جاتے ہیں مگر کنفرم نہیں ہوتے اور کچھ عرصے بعد گھر بھیج دئے جاتے ہیں ۔ اس سسٹم کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ججز کی سلیکشن کے طریقہ کار میں کئی خامیاں ہیں ۔جھنیں ٹھیک کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی دکھائی دیتا ہے ۔کبھی سوچا ہے آپ نے جس کو سینیئر ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کا جج نہیں بنایا ،اس کو انصاف کون دے گا ۔ ماضی میں بھی ایسے واقعات دیکھنے میں آ چکے ہیں ۔مگر ہم ماضی سے سبق نہیں سیکھتے ۔اسی طرح وکلا سپریم کورٹ کا ممبر بنانے کیلئے دس سال ہائی کورٹ کی پریکٹس لازم ہے مگر جن وکلا کے والدین ججز ہوتے ہیں ان وکلا کو خصوصی رعایت دیتے ہوئے سات سال میں سپریم کورٹ کا وکیل بنا دیا جاتا ہے ۔کیا یہ ناانصافی نہیں ۔ان کے دکھ کا مداوا کون کرے گا ۔ کیا کبھی ہماری بار کونسلوں نے بار ایسوں ایشین نے اس پر آواز اٹھائی ہے کہ اس طریقہ کار کو ہی ختم کر دیا جائے ۔ پانچ سال کی پریکٹس کے بعد ہر وکلا کا انٹرویو ایک سپریم کورٹ کا جج ایک سینئر ہائی کورٹ جج اور پاکستان بار کونسل کے ایک سینئر ممبر پر مشتمل بنچ ہوا کرے گا ۔وہی بنچ پاس یا فیل کرے گا جس کے بعد پاس ہونے والا وہ وکیل جہاں چاہیے وکالت کرے ۔ جیسے ہمارے پڑوسی ممالک میں ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس وکیل کی ڈگریاں جعلی تو نہیں ۔ مسلمانوں کے زوال کی وجہ عبادات میں کمی نہیں ہے بلکہ معاملات میں منافقت، دھوکہ دھی ، بے ایمانی آئین و قانون کے مطابق فیصلے نہ کرنااور وعدہ خلافی کرنا ہے۔ آخر میں امام علیؑ کا ایک قول ’’ مومن صوم و صلوۃ سے نہیں معاملات سے پہچانا جاتا ہے ‘‘