مسئلہ کشمیر اور عالمی برادری

عصمد علی کی عمر 14 سال ہے ، 14 سال کی عمر کا یہ معصوم بچہ کھیلتے کھیلتے گزشتہ سال 25 نومبر کو اپنے گائوں تیتری نوٹ سے غلطی سے لائن آف کنٹرول پار کرکے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تیتری نوٹ وہ مقام ہے جہاں سے ریاست جموں و کشمیر کے دونوں اطراف کے منقسم خاندان آر پار جاتے رہے اور تجارت بھی ہوتی رہی ہے۔آج کل اس مقام پر انڈین پوسٹ اتنی قریب ہے کہ اگر ایل او سی کے قریب ویرانے میں کوئی جائے تو واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ عصمد علی کو بھارتی فوج نے روایتی’’پھرتی‘‘ دکھاتے ہوئے فوراََ گرفتار کر لیا تھا۔ اس حوالے سے مذکورہ بچے کی نانی بزرگ کشمیری خاتون نے گزشتہ روز وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے اپنے نواسے کو بھارتی قید سے رہائی دلوانے کی اپیل کی ہے۔ درد دل رکھنے والے ’’انسان‘‘ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ عصمد علی دو ماہ سے بھارتی فوج کی قید میں کس حال میں ہوگا۔ عصمد کی نانی کے مطابق اْنہوں نے25 نومبر کو اطلاع ملتے ہی متعلقہ حکام کو آگاہ کیا گیا تھا ۔ متعلقہ حکام نے اس بارے میں انڈین حکام سے ہاٹ لائن پر رابطہ کر کے بچے کی گرفتاری کی تصدیق کی اور ان سے واپسی کے لیے گزارش کی تھی مگر متعدد بار رابطے کے باوجود انڈین حکام نے کوئی جواب نہیں دیا۔قارئین کرام ! کشمیر کے باسیوں کیلئے یہ کہانی نئی نہیں۔ بھارتی فوج کے مظالم اور دراندازیوں سے کشمیر کا شاید ہی کوئی گھر ہو جو متاثر نہ ہوا ہو۔حد متارکہ کو غیر ارادی طور پر پار کرنے کے واقعات تقریباً ہر سال رونما ہوتے ہیں۔ آزاد کشمیر سے لوگ مال مویشی چراتے ہوئے یا دروان کھیل کود بچے غیر اردای طور پر حد متارکہ پار کر جاتے ہیں اور بھارتی فوج انھیں گرفتار کر کے بغیر کسی وجہ کے قید میں ڈال دیتی ہے۔ ماضی میں اسی طرح کے کئی واقعات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں جن میں انجم نامی کم سن لڑکے کا معاملہ بھی شامل ہے۔ انجم 2017 میں حد متارکہ کی دوسری جانب کپواڑہ کے علاقے میں غیر ارادی طور چلا گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں متحرک ہیو مین رائٹس ایکٹوسٹ اور چائلڈ رائٹس ایکٹوسٹ کی تمام تر کوششوں کے باوجود انجم آج بھی بھارتی سیکوررٹی اداروں کے زیر حراست ہے۔ ہندوستان غلطی سے ’’خونی لکیر‘‘ پار کرنے والے کم سن بچوں کو بغیر کوئی جرم ثابت کیے قید میں ڈال کر انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی سراسر خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ صرف کشمیر میں رہنے والے ہی اپنی سرزمین پر غاصبین کی بربریت اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا درد محسوس کر سکتے ہیں۔ آج صبح ملک کے سب بڑے اور موقر اخبار ’’نوائے وقت‘‘ کا مطالعہ کر رہا تھا تو کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے اور فوجی محاصرے کے 909 روز گزرنے کا دیکھ کر جسم میں جھرجھری آ گئی۔ نوائے وقت کا یہ اعزاز ہے کہ ہمیشہ اس نے کشمیریوں کی ’’نوا‘‘ بن کر عالمی برادری کا ضمیر جھنجھنوڑنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ویسے تو گزشتہ کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر کے لاکھوںباشندے دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد ’’جمہوریت‘‘ کے ظلم و جبر کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں لیکن ان 909 دنوں میں ان گنت کشمیری مائوں نے اپنے لال گنوائے ، سہاگنیں بیوہ ہوئیں اور بچے یتیم کر دیئے گئے لیکن عالمی برادری کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اقوام متحدہ کشمیر بارے اپنی قراردادوں پر آج تک عمل نہیں کروا سکا۔ ایک طرف تو مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی خاموشی مجرمانہ ہے ، دوسری طر ف گزشتہ روز یوکرین اور روس تنازعہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا ہے۔انسانیت نواز عالمی میڈیا کو چاہئے کہ وہ اقوام متحدہ کا یہ دوغلا پن دنیا کے سامنے عیاں کرے۔ دل کو تھوڑا اطمینان اس بات کا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے موجودہ حکومت نے عالمی فورمز پر ہمیشہ موثر آواز اٹھائی ہے جس کی سب سے بڑی مثال اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر تھی۔ گزشتہ روز بھی اس حوالے سے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کی جارہی ہے، جہاں 90 لاکھ لوگوں کو بھارت نے کھلی جیل کی طرح قیدی بنایا ہوا ہے۔ عالمی برادری کشمیر پر دوہرا معیار اپنا رہی ہے اور مغرب اس معاملے میں  جان بوجھ کر خاموش ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر چاہے کتنے ہی دگر گوں حالات کا شکار ہواس نے عالمی سطح پر ہمیشہ انتہائی مثبت کردار ادا کیا ہے۔ یہ پاکستانیوں کی ہی فراخ دلی ہے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو اس کیخلاف نتائج کی پرواہ کئے بغیر آواز اٹھاتے اور مظلومین کو گلے سے لگاتے ہیں۔ سب سے بڑی مثال ہمسایہ ملک افغانستان کی ہے جہاں حالات خراب ہونے پر لاکھوں افغان مہاجرین کو پاکستانیوں نے سینے سے لگایا اور اپنے گھروں کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے۔ پاکستان ہمیشہ سے کہتا آیا ہے کہ مسئلہ کشمیر جیسے تمام تصفیہ طلب مسائل کو مذاکرات و سفارتکاری اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں و اقدار کے مطابق حل کرنا چاہئے۔ تاریخ اور قانون کے طالبعلم کی حیثیت سے مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اگر کوئی ملک یا قوم اپنا دیرینہ مسئلہ حل کرنے اورظلم کیخلاف آواز اٹھانے میں تمام تر عالمی اصول و قوانین اور اخلاقی اقدار پر عمل پیرا ہو تو عالمی برادری  اسے سنجیدہ کیوں نہیں لیتی ؟ جمہوریت اور انسانی حقوق کے چیمپئن شاید یہ چاہتے ہیں کہ خطے میں کوئی کشیدگی پیدا ہو لیکن پاکستان کے مدبرانہ کردار نے ہمیشہ خطے کو آگ میں جھونکے جانے سے بچایا ہے۔ میری دلی آرزو ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کی خصوصی رحمت سے جلد از جلد مسئلہ کشمیر کا پر امن حل ہو جائے ۔ آخر میں مظلوم کشمیریوں کے نام اپنا ایک شعر کہ
ظلم و ستم تمہارے کہاں تک سہے گا وہ
تم کو بہا لے جائیں گے آنسو غریب کے

ای پیپر دی نیشن