عمران خان کے آصف زرداری پر الزامات سے کشیدگی بڑھ گئی
سیانے کہتے ہیں ”سمے سمے کی بات ہے بھیا“ یعنی وقت وقت کی بات ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے تک خان صاحب ببانگ دہل کہتے پھرتے تھے کہ ”آصف علی زرداری میرے نشانے پر ہے۔ میں نے اسے نہیں چھوڑنا۔“ آصف علی زرداری نے کبھی اس بات کا بُرا نہیں منایا۔ چور ڈاکو نجانے اور کیا کیا کہا۔ مگر اب قتل کے الزام سے ان کے برداشت کی حد ختم ہو گئی ہے۔ جبھی تو انہوں نے عمران خان کو قانونی نوٹس بھجوایا ہے کیونکہ اب خان صاحب نے یوٹرن لیتے ہوئے آصف زرداری پر الزام لگایا ہے کہ وہ ان کو قتل کرانا چاہتے ہیں۔ گویا اب خان صاحب، زرداری کے نشانے پر ہیں۔ یعنی معاملہ اُلٹ ہو گیا ہے۔ پیپلز پارٹی والے اس پر بھڑک اُٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عمران خان نے جس طرح الزامات لگائے ہیں اس سے سیاست کا رخ تشدد کی طرف مڑ سکتا ہے۔ ویسے بھی کھلاڑی کیا معلوم کب خطرے کے کھلاڑی بن کر کچھ کر نہ بیٹھیں۔ سیاست میں لگی نفرت کی اس آگ کو ہوا دینے کی بجائے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ اب آصف زرداری کی طرف سے عمران خان کو 10 ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ 14 دن میں عمران خان معافی مانگیں۔ اب خان صاحب اپنے پارٹی رہنماﺅں سے مشورہ کریں کہ کیا کرنا ہے کیونکہ وہ خان صاحب کو درست مشورہ دے سکتے ہیں۔ باقی رہی عدالت کی بات تو وہ پی ٹی آئی کے وکیل خود سنبھال لیں گے آج تک وہ پے درپے اپنے قائد کو ریلیف دلانے میں کامیاب و کامران رہے ہیں۔ اب بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ ورنہ خان صاحب 10 ارب تو کیا 10 ہزار کسی کو نہ دیں ۔ بہرحال اب
معرکہ آج ہے حسن اور عشق میں
دیکھیں وہ کیا کریں اور ہم کیا کریں
سیاسی میدان میں آج تک ہرجانے ادا کرنے کی نوبت شاید ہی کبھی آئی ہو۔ کیا معلوم اب یہ روایت بدل جائے۔
٭٭٭٭٭
میلبورن میں خالصتانی سکھوںنے بھارتی ترنگا لہرانے والوں کو بھگا دیا
اپنی عزت اپنے ہاتھ ہوتی ہے۔ جب کسی کو خود اپنی عزت پیاری نہیں تو دوسرا بھلا کیا خاک اس کی عزت کرے گا۔ اب آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ہی دیکھ لیں ہزاروں سکھ مرد و زن اطمینان سے خالصتان کے قیام کے حق میں ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے طویل قطاریں بنائے آئے ہوئے تھے۔ اس پر بھارتی ہندو بھلا کہاں آرام سے بیٹھتے انہیں خوب مرچیں لگیں اور انہوں نے طے شدہ پروگرام کے مطابق ریفرنڈم میں خلل ڈالنے کے لیے ترنگا بردار ہندوﺅں کو حملے کے لیے بھیجا۔ مگر انجام کیا ہوا سب نے دیکھا کہ خالصتانی نوجوان نے ان مٹھی بھر شرپسند ترنگا برداروں کو مُکوں اور ٹھڈوں پر رکھ لیا اور یہ بھارتی سورما دم دبا کر یوں بھاگے کہ آسٹریلین شہری بھی حیران تھے کہ ان کو کیا ہو گیا۔ اب بھارت والوں کو بہرحال تسلیم کرنا ہو گا کہ بھارتی پنجاب جس کے انہوں نے تین ٹکڑے کر کے سوچا تھا کہ سکھوں کو لگام ڈال دی گئی ہے۔ اس کے باوجود سکھوں کے دلوں میں آزاد خالصتان کی لو اب بھی بھڑک رہی ہے۔ وہ آنچ جو 1984ءمیں بھارت نے اپنے تئیں بجھا دی تھی اب پھر شعلہ جوالہ بن گئی ہے۔ بھارت کے دامن میں جگہ جگہ آگ لگی ہوئی ہے۔ سیون سسٹر کہلانے والی سات ریاستوں اور کشمیر میں بھارت کے جابرانہ تسلط سے آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ اب خالصتان کا جن بھی بوتل سے باہر آ چکا ہے۔ آج نہیں تو کل جبر کی یہ زنجیریں ضرورٹوٹیں گی اور علیحدگی کی یہ تحریکیں رنگ لائیں گی۔ فی الحال تو سکھوں نے بھارتی جغرافیہ پر ضرب لگانے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ لگتا بھی یوں ہے کہ بھارت سے علیحدہ ہونے والی ریاستوں میں اول نمبر خالصتان کا ہو گا جس کے بعد کشمیر کی باری خودبخود آ جائے گی۔
٭٭٭٭٭
کوئی روئے گا یا روئے گی بعد کی بات آج ساری قوم رور ہی ہے۔ شیخ رشید
بات تو سچ ہے کہ آج پوری قوم رو رہی ہے۔ کوئی مسیحا بن کر آئے یا پہلے سے موجود ہمارے مسیحا اپنا کوئی رنگ جمائیں۔ عوام کو حکمرانوں نے زندہ درگور کر دیا ہے۔ یہاں مسیحا نہیں سب کند چُھری سے عوام کی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔ سو اس حالت میں کوئی مگرمچھ کے آنسو بہاتا نظر آئے یا ٹسوے بہاتا۔ یہ سب وہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ اب عوام کو بھی اس کا ادراک ہو گیا ہے۔ شیخ جی کو بھی عوامی مسائل کا دُکھ نہیں۔ انہیں بھی باقی سیاستدانوں کی طرح صرف اور صرف الیکشن کا غم کھائے جا رہا ہے اور ان کے ہر بیان کی تان الیکشن کا اعلان آج ہو گا کل ہو گا فروری میں ہو گا مارچ میں ہو گا پر ٹوٹتی ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا وہ اپنا موضوع سخن عوامی مسائل پر فوکس کرتے۔ ویسے بھی تو وہ خود کو عوامی سیاستدان کہتے ہیں۔ مگر لگتا ہے آج کل لال حویلی کی وجہ سے وہ فرسٹریشن کا شکار ہیں۔ متروکہ املاک والے ہاتھ دھو کر لال حویلی کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ اب شیخ جی کے پاس وہ جادوئی چھڑی بھی نہیں جو انہیں حوادث زمانے سے بچاتی تھی اس لیے کوئی روئے یا نہ روئے وہ خود البتہ رو رہے ہیں کیونکہ محکمہ متروکہ املاک والوں نے لال حویلی کی4 دکانیں سیل کر دی ہیں۔ اس خبر پر شیخ جی نے عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔ ظاہر ہے ان کا کوئی ذریعہ آمدن تو ہے نہیں وہ شاید لال حویلی کے کرائے اور شیخ فارمز سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہی گزارہ کرتے ہیں۔ اب یہ آمدنی کے ذرائع بند ہوئے تو شیخ جی کیا کریں گے۔ بڑے ظالم ہیں یہ متروکہ املاک والے انہیں کچھ تو سوچنا چاہیے تھا۔
٭٭٭٭٭
امریکہ، پالتو کتے سے گولی چل گئی۔ مالک ہلاک
یہ انوکھا حادثہ امریکی ریاست کنساس میں پیش آیا۔ جہاں شکار پر جانے والے 30 سالہ نوجوان کے پالتو کتے کا پاﺅں رائفل پر کچھ اس طرح پڑا کہ ٹائیگر دب گیا اور گولی سیدھی نوجوان کوجا لگی اور یوں شکار پر جانے والا شکاری خود شکار ہوگیا۔ اب خدا جانے اس کتے پر مقدمہ چلے گا یا نہیں۔ اگر چلا تو قتل خطا کے تحت اس بے زبان کو سزا ملے گی یا قانون رعایت دے کر بری کرے ۔ ہو گا جو بھی ہوگا وہ امریکی قانون کا معاملہ ہے ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔ وہاں انسانوں سے زیادہ آج کل جانوروں کو حقوق حاصل ہیں۔ کتنی بڑی بات ہے۔ مغربی دنیا میں لوگ خود کتوں اور بلیوں کو اپنی اولاد کی طرح گود میں لے کر پالتے ہیں جبکہ خود ان انسانوں کے بچے ان کے ملازم پال رہے ہوتے ہیں۔ یہ الُٹ پھیر سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسے ترقی کہیں یا تنزلی۔ انسان اشرف المخلوقات ہے مگر اس کے فیصلے خود بنی نوع۔ انسان کے مقابلے میں جانوروں کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ ایک عجب داستان ہے۔ خدا جانے اس کا انجام کیا ہو گا۔ وہاں انسان اپنی اولاد کو بھائی بہنوں ،ماں باپ اور رشتہ داروں کو اتنا وقت نہیں دیتا جتنا اپنے پالتو جانوروں کو دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ وہاں ہر شخص مردم بیزار نظر آتا ہے۔ کتے اور بلی کو دیکھ کر ان کی محبت جاگ اُٹھتی ہے۔ مگر اپنے خونی رشتوں کے حامل والدین اور اولاد کے لیے ان کے دل میں وہ محبت نہیں جاگتی۔ جبھی تو بچے چائلڈ ہومز میں اور بوڑھے اولڈ ہومز میں پلتے ہیں۔ کتے اور بلیاں البتہ گھروں میں گود میں اور بیڈ رومز میں جگہ پاتی ہیں۔
٭٭٭٭٭
منگل، 8 رجب المرجب 1444ھ، 31 جنوری 2023ئ
Jan 31, 2023