سنبھل جائیں!!!!!

کیا میرا پیارا ملک پھر دہشت گردوں کے نشانے پر ہے، کیا ایک مرتبہ پھر ہم دہشت گردی کا شکار ہونے جا رہے ہیں، کیا ایک مرتبہ پھر خوف کی فضا قائم ہو رہی ہے، کیا پھر دشمن ہماری صفوں میں گھس آیا ہے، کیا پھر ہمارا امن تباہ کرنے کی سازشیں شروع ہو چکی ہیں، کیا ایک مرتبہ پھر گولیوں کی تڑتڑاہٹ سننے کو ملے گی، کیا ایک مرتبہ پھر سڑکیں خون سے بھریں گی، کیا پھر دشمن پاکستان کو عالمی تنہائی کی طرف لے کر جانا چاہتا ہے، کیا ایک مرتبہ ہھر بم دھماکوں کی دل ہلا دینے والی تباہ کن خبریں سننے کو ملیں گی۔ یہ سوچ کر دل دہل جاتا ہے، آنکھیں بھر آتی ہیں۔ پندرہ بیس برس ہم نے اس مشکل میں گذارے ابھی امن کا لطف بھی اچھے طریقے سے نہیں اٹھایا تھا کہ دشمن پھر حملہ آور ہوا ہے۔ گذشتہ روز پشاور میں ہونے والا دھماکا بہت بڑا دھچکا ہے۔ اتنے شہید، اتنے زخمی یہ کہاں دفنائیں گے، یہ زخم کیسے چھپائیں گے۔ یہ دکھ کیسے کم ہو گا۔ کوئی ان زخموں کو بھر نہیں سکتا، کوئی دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتا۔ جب یہ کالم لکھ رہا ہوں اس وقت تک پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش دھماکے میں شہید ہونے والوں کی تعداد بتیس تک پہنچ چکی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد ایک سو چالیس ہو چکی ہے۔
 پشاور کے علاقے صدر پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے دھماکے کی آواز اتنی شدید تھی کہ دور دور تک سنی گئی۔ دھما کے کے بعد علاقے میں فائرنگ ہوتی رہی۔ دھماکے کے بعد زخمیوں کو قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا جب کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی موقع پر پہنچ گئے، سیکیورٹی اہلکاروں نے علاقے کو سیل کردیا۔ترجمان لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے مطابق  شہید ہونے والے بتیس افراد میں اٹھارہ پولیس اہلکار شامل ہیں جب کہ بیشتر زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ دھماکا اس وقت ہوا جب مسجد میں نماز ادا کی جا رہی تھی۔ خودکش حملہ آور پہلی صف میں موجود تھا جس نے نماز کے دوران خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔دھماکے کے بعد مسجد منہدم ہو گئی۔ پولیس لائنز صدر کا علاقہ ریڈزون اور حساس علاقہ تصور کیا جاتا ہے اس کے قریب کئی اہم عمارتیں اور سی ٹی ڈی کا دفتر، پشاور پولیس کے سربراہ اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کا دفتر بھی ہے۔
ایسی جگہ خود کش دھماکے ہونے کا ایک مطلب تو بہت واضح ہے کہ بیرونی دشمن حرکت میں ہیں اور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایک مرتبہ پھر نشانے پر رکھا گیا ہے۔ یہ صورتحال خطرناک اور تشویشناک ہے۔ جنہوں نے ملک کی حفاظت کرنی ہے، عام آدمی کو تفظ فراہم کرنا ہے اگر وہ خود غیر محفوظ ہو جائیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دشمن کس حد تک ہمارے امن کو تباہ کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ یہ دھماکا گذشتہ چند ماہ میں ہونے والے واقعات کا تسلسل ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی اور انہوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے وقت ضائع کیا اور آج حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ پشاور کا ریڈ زون بھی محفوظ نہیں ہے۔ مسجد میں دھماکہ ہو بتیس قیمتی جانیں چلی جائیں، لگ بھگ ڈیڑھ سو زخمی ہو جائیں یہ کام کوئی مسلمان تو نہیں کر سکتا کہ وہ پہلی صف میں کھڑا ہو اور اپنے مسلمان بھائیوں کی زندگیوں سے کھیل جائے۔ یہ تو انسانیت سے دشمنی ہے۔ اس کی مذمت تو ہو رہی ہے لیکن ایسے لوگوں کی مرمت کرنا مذمت سے کہیں زیادہ اہم ہے پہلے بھی مرمت کے بعد ہی حالات بہتر ہوئے تھے ایک مرتبہ پھر بہت سخت فیصلوں اور بیرحمی کی ضرورت ہے۔ 
سیاسی قیادت بھی ہوش کے ناخن لے، ملک میں ممکنہ طور پر لگنے والی سے کروڑوں لوگوں کو بچانے کے لیے نفرت انگیز بیانات کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ سیاسی قیادت کا متحد ہونا لازم ہے۔ جب تک سیاستدان متحد نہیں ہوں گے، ملک کو درپیش مسائل سے نکلنے کے لیے بیک وقت تحمل مزاجی اور جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اسی طرح لڑائی جھگڑوں میں مصروف رہیں تو پھر دشمن اس سیاسی عدم استحکام سے فائدہ اٹھائے گا، ملک کا امن تباہ ہو گا، پاکستان سیاسی عدم استحکام، معاشی عدم استحکام کے بعد امن و امان کے مسائل کا بھی سامنا ہو گا اور یہ مسائل صرف بیانات سے حل ہرگز ہرگز نہیں ہوں گے۔ بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اس وقت خدانخواستہ کوئی نقصان ہوتا ہے تو وہ صرف کسی ایک سیاسی جماعت کا نقصان ہرگز نہیں ہو گا۔ 
دوسری طرف خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی  نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو قانونی نوٹس بھجوا دیا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کو دس ارب روپے ہرجانے کا قانونی نوٹس سابق صدر آصف زرداری کی جانب سے بھجواتے ہوئے ان سے چودہ دن میں غیرمشروط معافی مانگنے کا کہا گیا ہے۔
عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ انہیں آصف زرداری کی جانب سے جان کا خطرہ ہے۔ قانونی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے کیا عمران خان کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں؟ یہ سراسر الزام اور بہتان ہے، اس سے کئی شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں لہٰذا عمران خان عدالت کو اس پر واضح مؤقف دیں اور ثبوت سامنے لائے جائیں۔ عمران خان نے گزشتہ دنوں اپنے خطاب میں الزام عائد کیا تھا کہ ’ایک پلان سی بنا ہے، آصف  زرداری اس کے پیچھے ہے، ان کے پاس کرپشن کا پیسہ بے تحاشہ ہے، انہوں نے مجھے قتل کرانے کے لیے یہ پیسہ دہشتگرد تنظیم کو دیا ہے۔
عمران خان کے ایسے بیانات ملک میں انتشار کا باعث ہیں ملک میں امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے، عمران خان نے الزامات لگائے ہیں تو اب انہیں عدالت میں ثابت کرنا چاہیے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ کوئی بھی شخص کھڑا ہو اور کسی پر اتنے سنجیدہ الزامات عائد کر دے۔ یہ کوئی بھی کرے غلط ہے یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...