حکومتی وزراءکا مانناہے کہ آئی ایم ایف چند ڈالرز کے قرضہ کے لیئے ہم سے ناک رگڑوا رہا ہے اور حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ کے علاوہ کوئی ہمیں ایک ٹکہ بھی ادھار دینے کو تیار نہیں اور اگر ہم آئی ایم ایف کے پروگرام سے منہ موڑیں گے تو دیگر عالمی مالیاتی ادارے بھی ہمیں مقروض کرنے کے قابل نہ سمجھیں گے۔ یعنی ایک دو دھاری تلوار ہے جو حکومت کے سر پر لٹک رہی ہے۔قبول کریں تو مصیبت،نہ کریں تو مصیبت۔اسی مجبوری کے باعث جب آئی ایم کی مشکل شرائط مان لی گئیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ڈالر اپنی اوقات سے بھی باہر نکل گیا۔ حکومت نے ڈالر کی قیت مقرر کرنے کیلئے سٹیٹ بنک کو کھلی چھوٹ دے دی تاکہ وہ تمام ڈالرز مارکیٹ اور بنکوں میں واپس آ جائیں جو کہ منافع کمانے کی غرض سے چھپائے گئے تھے۔یعنی حکومت نے ڈالر کے ذخیرہ اندوزوں کو راتوں رات اربوں روپے کا فائدہ پہنچا دیا اور روپے کی قیمت گرانے سے جو مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا۔ اس کیلئے لاچار عوام اب چیخیں مار ہے ہیں لیکن حکمران ان چیخوں اور دہائیوں کے جواب میں دلاسہ دے رہی ہے کہ ایک دن میں روپے کی قیمت تیس روپے فی ڈالر گرا نے سے برآمدات میں اضافہ ہو گا، غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا، جن اشیائے ضروریہ کی خریداری کے لیئے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے ہیں، ڈالر کی آ مد سے وہ غیر ملکی خریداری ممکن ہو سکے گی، اور یوں ڈالر کی قیمت کے بڑھنے کے ثمرات ملنا شروع ہو جائیں گے، لیکن حکومت تصویر کا دوسرا رخ نہیں بتاتی کہ عوام کے لیئے مہنگا ڈالر کیا ڈراونا خواب ثابت ہوگا، مہنگائی کا ایک نیا سیلاب آچکا، فی کس آمدن راتوں رات کم ہوگئی، ایک ہی جھٹکے میں غیر ملکی قرضہ تین ہزار ارب روپے بڑھ گیا۔ اب جس کے پاس ڈالر ہے وہ منہ مانگی قیمت مانگ رہا ہے۔ اور جس کے پاس روپے ہیں انکی رقوم کی قدر میں راتوں رات کمی ہو گئی، عوام کی قوت خرید کا گراف نیچے گر گیا اور اخراجات کی مد میں اضافہ ہونے سے عوام کا معیار زندگی ایک جھٹکے سے ہی نیچے آ گیا۔ یہ وہ مخفی حقائق ہیں جو بظاہر سامنے نہیں آتے لیکن جب اعدودوشمار اور گنتی کی جائے تب پتہ چلتاہے کہ ان ارسطوی اقدامات کا عوام کو کتنا زیادہ نقصان ہوا ہے۔لیکن حکمران عوام کو دلاسہ دے رہے ہیں کہ چونکہ یہ ملک رمضان کی ستائیسویں شب کو بنا تھا، یہ ملک کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور یہ کہ اسکی خو شحالی کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ پر ہے،(یہ نہیں بتاتے کہ ہمیشہ قائم رہنے والا ملکِ خداداد اپنے وجود میں آنے کے محض چوبیس برس بعد ہی دو لخت کیوں ہوا) بنانا ریپبلک کی اصطلاح اس غریب اور مفلو ک الحال ریاست کے لئے استعمال کی جاتی ہے جس کے پاس خریدنے اور بیچنے کیلئے کیلوں کے سوا کچھ نہ ہو، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے زرعی ملک میں کیلے بھی درآمد کرنا پڑتے ہیں، وزیر خزانہ نے تو ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں اور یہ کہہ کر بری الذمہ ہو گئے ہیں کہ اس ملک کی خوشحالی اور ترقی اللہ کے ذمہ ہے۔
ہم نے اپنے کرتوت درست نہیں کرنے اور ذمہ داری ڈال دینی ہے اللہ تعالیٰ پر، حالانکہ اسی ایک اللہ کے دین میں جو اوصاف حمیدہ ہمارا طرہ امتیاز ہونا چاہئیں تھے، کافرقوموں نے انہیں اپنا شعار بنا لیا اور ہم نے معجزے کا انتظار شروع کر دیا، ہم نے خود کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے اللہ نے ہی کرنا ہے۔ ابھی تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے قرضہ دینے کےلئے مزید شرائط کا عندیہ دیا ہے، آج ہی آئی ایم ایف کا مشن بریف کیس لیکر پہنچ رہا ہے، ہمیں ڈالرز کی جھلک دکھائے گا اوراپنا پیسہ واپس لینے کیلئے ایسی شرائط منوائے گا جس کا اثر براہ راست عوام پر ہو گا۔ پٹرول، بجلی گیس کی شیڈول قیمتوں میں اضافہ ہو گا، مختلف ذرائع سے بلا واسطہ اور بالواسطہ ٹیکس تجاویز دی جائیں گی، حکومت ان تجاویز کے تحت با قاعدہ ایک منی بجٹ کا ڈرافٹ تیار کر چکی ہے، چند ملین ڈالر لینے کیلئے معیشت ہی نہیں بلکہ قومی غیرت و حمیت بھی گروی رکھنے کی تیاری مکمل ہو چکی ہے۔اس کنویں میں گرنے کے سوا چارہ کوئی نہیں، ماضی میں ایک وقت تھا، جب یہی حکومت آئی ایم ایف کا کشکول توڑنے کی باتیں کر تی تھی، قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ لگاتی تھی۔ اب ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم ایک بنانا ریپبلک ہیں جس کا کام صرف ہاتھ پھیلانا ہے۔
افسوس کہ قومیں صنعتی ترقی پہ ناز کرتی ہیں، ہم اس بات پر ناز کر رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایک بھی فیکٹری نہیں، ایک بھی کارخانہ نہیں جہاں سے دھواں نکل رہا ہو۔ زراعت کی تباہ کاری تو ایک عرصہ سے جاری ہے۔ اب صنعتی شعبے میں بھی اگر کسی چمنی سے دھواں نہ نکلے تو محاورتا سمجھ لیجئے کہ اس گھر کا چولھا بجھ چکا۔اب ایندھن بھی ادھار چاہیے اور خوراک بھی خیرات میں۔ دیکھتے ہیں آئی ایم ایف ہماری غربت وبے کسی سے کتنا متاثر ہوتا ہے۔