مغربی پاکستان کے سابق چیف جسٹس کیانی مرحوم نے کہا تھا ”بدقسمتی اکیلی نہیں آتی، یہ گروہ، جتھوں اور بسااوقات سارے لشکر کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔“ ان دنوں مرحوم کے طنز و تشنیع میں لپٹے ہوئے جملے خاصے مقبول ہوئے۔ اکثریت ان کی حسِ مزاح کی قائل تھی۔
اُن کا تعلق انڈین سول سروس سے تھا۔ یہ سروس نہ تھی بلکہ ایک قسم کا امرت دھارا تھا۔ ان کے لیے دیگر تمام سروسز کے علاوہ جوڈیشری کے دروازے بھی کھلے ہوئے تھے۔ اس میں گُھسنا بھی ان کی صوابدید پر تھا۔ کیانی صاحب جب ریٹائر ہوئے تو ملک کی تمام قابلِ ذکر تنظیموں نے انہیں اپنے خیالات کے اظہار کے لیے مدعو کیا۔ ایوب خان کے قصرِ صدارت میں خطرے کی تمام گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں۔ مغربی پاکستان میں انہوں نے آخری خطاب میری دعوت پر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاست میں کیا۔
میں اس وقت سٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا۔مشرقی پاکستان گئے تو اچانک حرکتِ قلب بند ہونے سے وفات پا گئے۔ ایوب خان نے سُکھ کا سانس لیا۔ محترمہ فاطمہ جناح کی جگہ اگر یہ صدارتی اُمیدوار ہوتے تو خان کُھل کر نہ کھیل سکتا۔
تمہید کچھ طوالت اختیار کر گئی ہے۔ یادوں کے جب دریچے کُھلتے ہیں تو کئی ناگوار حقیقتیں سر اُٹھاتی ہیں۔ دراصل یہ واقعہ ہمیں اس لیے یاد آیا ہے کہ ملک ایک بار پھر مشکلات میں گِھر گیا ہے۔
Covid ، سیلاب، گرانی ، بے روزگاری، روپے کی بے قدری نے معیشت کی چُولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ بائیس کروڑ کی آبادی کا ملک، جوہری طاقت! دُنیا کی بہترین فوج! جہاں امریکہ اور روس جیسی ”سُوپرپاورز“ اور نیٹو کی متحدہ افواج عسکریت پسندوں کی سرکوبی نہ کر سکیں، ہمارے جوانوں نے اُنہیں نکیل ڈال دی ہے۔ ایسی قوت کی معیشت بدقسمتی سے ہچکیاں اور ہچکولے کھا رہی ہے۔ مضبوط فوج کے لیے مضبوط معیشت ضروری ہے! سوویت ایمپائر جب ٹوٹی تو انہیں کسی دشمن ملک نے شکست نہیں دی تھی۔ گھر کا بھیدی (معیشت) لنکا ڈھا گیا۔ دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جن کے پاس قدرتی وسائل نہیں ہیں۔ لوگ غریب پیدا ہوتے ہیں اور حیاتِ ناپائیدار کے چند دن گزار کر رخصت ہو جاتے ہیں۔
ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے۔ قدرت نے ہمیں ہر وہ چیز دے رکھی ہے جس سے ملکی معیشت مضبوط اور مستحکم ہو سکتی ہے۔ اسے آپ تساہل پسندی کہہ لیں۔ باہمی نفاق اور شکر رنجیاں یا نااہلی کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہمارے پاس کچھ نہیں ہے! سونے کی کانیں ہیں لیکن ہمارا مقدر سو رہا ہے....کیا آپ نے کبھی سُنا ہے کہ کسی ملک کو سینکڑوں ارب ڈالر کمانے کی بجائے چھ ارب ڈالر جرمانہ ہو گیا ہو۔ پانی ہے لیکن دھرتی پیاسی ہے! تھر اور چولستان کے باسیوں کی پتھرائی ہوئی آنکھیں سارا سال آسمان کی طرف لگی رہتی ہیں۔
لرزتے ہوئے ہاتھ دعائیہ انداز میں جُڑے ہوتے ہیں۔ بھوک اور پیاس کی شدت سے حروفِ دُعا بھی یاد نہیں رہتے! ہمالہ، قراقرم اور کوہِ سلیمان کی پہاڑیوں سے بہتا ہوا سیال سونا رزق سمندر ہو کر کھارا پانی بن جاتا ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان اور چین نے سینکڑوں ڈیم بنائے ہیں، ہم ہنوز ”دو دُونے چار“ کا پہاڑا پڑھ رہے ہیں۔
صوبائی عصبیت، خودغرضی اور لالچ نے ہماری قومی زندگی میں زہر گھول دیا ہے۔ مغرب میں Holocast کا ذکر کرنا جرم ہے۔ یہاں کالا باغ ڈیم کا نام بھی لیں تو توپوں کے دہانے کھل جاتے ہیں۔ علیحدگی کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ آجکل ہمارے ”امام غزالی“ نے شرک کی نئی تشریح کی ہے۔ مفاد پرست کالا باغ کا نام لینا بھی کچھ ایسا ہی گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ اگر خودکشی حرام ہے تو اجتماعی خودکشی بھی کچھ ایسا ہی عمل ہے۔
ایک مرتبہ ابوظہبی کے سابق حکمران شیخ زید نے کہا تھا ”مجھے پانی دو اس کے بدلے میں تمہیں تیل دونگا“ آج زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ تیل کے معاملے میں ہم خودکفیل ہو گئے ہیں۔ حکمران بائیس کروڑ بھوکے ننگوں کا تیل کشید کر رہے ہیں۔
توانائی کے لیے کوئلہ ہے لیکن ہم نے اس سے آج تک صرف اپنا منہ کالا کیا ہے۔ کوئلے کے ذخائر دریافت ہوئے قریباً پچاس برس ہو گئے ہیں۔ حکومت کے مطابق ان سے سو برس تک استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔ توانائی کے بحران کی وجہ سے دنیا میں کوئلے کی قیمت آسمان کو چُھونے لگی ہے۔
میں نے حال ہی میں آسٹریلیا کے شہر نیوکاسل کی کانوں کے باہر سمندری جہازوں کو قطار اندر قطار کھڑے دیکھا ہے۔ اگر ہم تحریص اور مناقشت کے چکر میں نہ پڑتے اور بروقت ان کانوں کو Develop کر لیتے تو لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہو جاتا اور ہم بھی کوئلہ برآمد کر کے کثیر تعداد میں زرمبادلہ کما سکتے تھے! بدقسمتی سے کچھ بھی نہیں ہو سکا۔
ساحر لدھیانوی نے کہا تھا :
کاش ، سینکڑوں سال کے پابندِ سلاسل
اپنے آقاﺅں سے لے سکتے خراج!
جن کو اپنی جانوں کے نذرانے دینے سے فرصت نہ ملتی ہو، انہوں نے خراج کیا لینا ہے!