گرین لائن ٹرین کی افتتاحی تقریب میں وزیر خزانہ نے عوام پر واضح کردیا کہ(ہمارے آسرے پر نہیں رہنا) "پاکستان واحد ملک ہے جوکلمہ طیبہ کے نام پر قائم ہوا ہے_جبکہ سعودی عرب بھی کلمے کے نام پر وجود میں نہیں آیا ہے۔ لہٰذا اسکی حفاظت، اسکی ترقی اور خوشحالی اللہ پاک کے ذمے ہے۔ انشاءاللہ پاکستان تا قیامت آباد رہے گا ۔ ایسی ہی سوچ کا مظاہرہ ہمارے ماضی کے کوتاہ اندیش حکمران بھی کہا کرتے تھے۔ اس خوش فہمی کا شکار رہنا کہ خود کچھ کرنا نہیںاور اقتدار کی جان بھی نہیں چھوڑنی۔آئی ایم ایف ہمیں قسط دیتا ہے یا نہیں۔ ہمارے پاس اور بھی ایوینوز ہیں۔ میرا ان سے ڈیل کرنے کا 25 سال کا تجربہ ہے مفتاح نے آئی ایم ایف سے ڈیل نہیں کرنی۔ یہ بڑھک بازی کسی کام کی نہیں۔ اسحاق ڈار اپنی نااہلی تسلیم کر تے ہوئے گھر کی راہ لیتے، انہوں نے اقتصادی محاذ پر آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے ہمیں اور ہمارے بچوں کو اللہ کے سپرد کر دیا ۔ مریم فرما رہی ہیں کہ اسحاق ڈار ہی معیشت درست کرینگے۔ 35 روپے پٹرول مہنگا کرنے میاں نواز شریف ٹس سے مس نہیں ہو رہے حالانکہ مفتاح نے جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا تو میاں نواز شریف نے لندن بلا کر ان کی توہین آمیز طریقے سے وزارت سے چھٹی کروا دی تھی۔ کاش مولانا فضل الرحمن پاکستان اور عوام کو اللہ کے حوالے کر نے کی بات پر بتا دیتے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے "انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جسکی وہ سعی کرتا ہے"
اگر اسحاق ڈار عمران خان اور مفتاح کی ضد میں آکر ڈالرز کو کیپ نہ کرتے، ڈالرز کا بلیک مارکیٹ میں ریٹ انٹر بینک سے 30 روپے زیادہ نہ ہوتا تو ہمیں حوالے کی بجائے 2.4 بلین ڈالرز کے ترسیلات زر ریگولر بنکنگ چینلز سے حاصل ہو جاتے اور ڈالرز کی گرے مارکیٹ جنم نہ لیتی اور یہ 244 روپے تک اوپن مارکیٹ میں ٹریڈ ہوتا رہتا مگر اسحاق ڈار اسکو 200 روپے سے نیچے رکھنے کے چکر میں اسکی چڑھا ئی پر بریکیں فیل کر کے پاکستان کی گاڑی کو اللہ کے آسرے پر چھوڑ کر ماضی کو یاد کر رہے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں War on Terrorکی وجہ سے ڈالرز کی ریل پیل تھی افغانستان کی کرپٹ ایلیٹ یہ ڈالر ز پاکستان میں مہنگی جائیدادوں پر خرچ کررہی تھی۔ تارکین وطن کو امریکہ اور یورپ میں اپنے اکاو¿نٹس ضبط ہونے کا خدشہ ہوا تو انہوں نے 62 ارب ڈالرز پاکستان میں جائیدادوں پر خرچ کر دئیے۔ ان حالات میں اسحاق ڈار سٹیٹ بنک سے ڈالر ز کی اوپن مارکیٹ میں رسد بڑھا کر ڈالرز کا ریٹ ریگولیٹ کر لیتے تھے مگر اب خزانے میں ڈالرز نہیں ہیں 2 ارب کے ڈالرز ہر ماہ افغانستان سمگل ہو رہے ہیں، سعودی عرب، چین قطر، امارت آئی ایم ایف کے پروگرام کی منظوری کے بغیر قرض دینے پر آمادہ نہیں چنانچہ اب ہم آئی ایم ایف کو اپنا آقا ومولا تسلیم کر کے اسکی تمام شرائط مان کر اچھے بچے بن کر معیشت کو viable کر رہے ہیں۔ یہ تو کوئی اناڑی بھی کر سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کا تجربہ اور دعوے کہا ں ہیں کہ وہ معیشت کو مضبوط بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ اگر آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر ہی چلنا تھا وہ تو مفتاح اسماعیل کر رہے تھے۔ اسحاق ڈار کون سی توپ چلانے آئے تھے۔ مفتاح اکتوبر میں آئی ایم ایف سے قسط لے لیتا مہنگائی بڑھتی روپیہ گراوٹ کا شکار ہو تا مگر یہ غیر یقینی صورتحال نہ ہوتی اور لوگ Panic ہو کر Dollarization اور گولڈ میں سرمایہ کاری نہ کر رہے ہو تے۔
آئی ایم ایف کا پروگرام تعطل کا شکار نہ ہوتا 2.4 ارب ڑالرز کی ترسیلات زر میں کمی نہ ہوتی باہی لیٹر ل اور ملٹی لیٹر ل امداد کا سلسلہ جاری رہتا مگر مرے کو مار ے شاہ مدار پاکستان میں روپے کی 15 فیصد گراوٹ، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 35 روپے کا گراں قدر اضافہ اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد 200 سے 300 ارب کے منی بجٹ یا صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نئے ٹیکس لگا کر عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیا جائیگا۔ پاکستان کو 6ارب ڈالرز خسارے کا سامنا ہے۔ 7 سے 8 ارب ڈالرز کے قرض اگلے 6 ماہ میں واپس کر نے ہیں لہٰذا ہم کیسے آئی ایم ایف سے قسط لینے کے بعد بھی معاشی بحران سے نکل سکتے ہیں ۔
شہباز حکومت کی کوئی واضح معاشی سمت نہیں ہے
پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ حکومت بوکھلاہٹ میں فیصلے کر رہی ہے شرح سود گزشتہ 23 سال کی بلند ترین سطح 17 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔
پاکستان کے سرٹیفکیٹس پر بھی شرح منافع 8فیصدڈالرز اکاونٹ اور 12 فیصد پاکستانی اکاو¿نٹس پر کر دی گئی ہے تاکہ بہتر شرح منافع کی وجہ سے لوگ بنکوں میں پیسے زیادہ سے زیادہ جمع کروائیں اور حکومت کو ہاٹ منی مل جائے اور افراط زر کی شرح گر جائے مگر سٹیٹ بنک کی زری پالیسی کا تمام تر اثر فسکل پالیسی کے ہم آہنگ نہ ہو نے،روپے کی گراوٹ اور لوگوں کے اپنی رقوم ڈالرز اور گولڈ میں محفوظ کرنے سے افراط زر اور مہنگائی محض شرح سود میں اضافے سے کیسے کم ہو سکتی ہے اس پرمستزاد یہ کہ پاکستان کی اکانومی کا بڑا حصہ Undocumented ہے تاہم پالیسی ریٹ پڑھنے پر بنکس صارفین سے جو شرح سود چارج کرتے ہیں وہ KIBOR کہلاتی ہے اور اس میں پالیسی ریٹ پلس 3 سے 4 فیصد سروسز چارجز شامل ہوتے ہیں۔ اب ایک درمیانے درجے کا کاروباری شخص21 یا 22 شرح سود فیصد پر کیسے بنک سے قرض لیکر کاروبار کر سکے گا اور عام شہری جو گھر یا گاڑی کیلئے قرض لے چکا ہے لینا چاہتا ہے وہ کیسے سود ادا کریگا۔ اسکی جان شکنجے میں پھنس گئی ہے ۔
آئی ایم ایف کے 9th ریو پر قسط ملنے پر بھی ہم معاشی تباہی سے نہیں بچ سکتے اس لئے روز مرنے سے بہتر ہے کہ ہم ڈیفالٹ ہو کر پتھر کے دور میں چلے جائیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ ہمدوائیوں کے بغیر مر جائینگے مگر افغانستان جیسے حالات ہونگے تو اشرافیہ تو ملک سے بھاگ جائیگی۔ جب لوگ بھوک افلاس کا شکار ہو نگے تو طاقتور بھی مارے جائینگے سوویت یونین ایٹمی سپر پاور تھی مگر معاشی کرائسس نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ ابھی بھی وقت ہے سیاست دان اور اسٹیبلشمنٹ معاشی اور سیاسی استحکام کیلئے سمجھوتہ کر لیں وگرنہ پاکستان کے ساتھ برا کرنے والوں کا کیا انجام ہوا ہے یہ سب جانتے ہیں۔