الیکشن کمیشن جواب دے 


عارفہ صبح خان
تقریباً دس بارہ سال پہلے کی بات ہے جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے۔ اُنھیں اپنے آفس کے لیے ایک بہترین سینئر انفارمیشن آفیسر کی ضرورت تھی جسکے لیے اشتہار دیا گیا۔ میں نے بھی اپلائی کیا۔ لگ بھگ سوسے زائدافراد نے اپلائی کیا۔ شارٹ لسٹنگ کے بعد میرٹ لسٹ میں سب سے اوپر میرا نام تھا کیونکہ کوالیفیکیشن، تجربہ اور پرفارمینس میں سب سے سینئر تھی۔ میں ٹاپ آف لسٹ تھی تا ہم مجھے بیس امیدواروں کے بعد بلایا گیا۔ چار افراد کا پینل تھا۔ جس میں موجودہ چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان، شعیب بن عزیز اوردو بیورو کریٹس تھے۔ سوال جواب کا سیشن شروع ہوا۔ میں صرف شعیب بن عزیز کو جانتی تھی جبکہ تینوں بیوروکریٹس سے نا واقف تھی۔ سب سے زیادہ اور سب سے مشکل سوالات راجہ سکندر نے کیے۔ راجہ سکندر نے انگریزی میں کہا کہ ہم تو پہلے ہی آپکی ذہانت اور جوابات سے مرعوب ہو چکے ہیں۔ اس موقع پر شعیب بن عزیز نے میری بہادری، تعلیم، تجربے اور ذہانت کی شاندار الفا ظ میں تعریف کی ۔ میری کتاب شٹ اَپ، ما بدولت اور تجاہلِ عارفانہ کا ذکر کیا۔ انٹرویو کے بعد میں فاتحانہ انداز میں باہر آ گئی۔ کوآرڈینٹر نے مجھے کہا کہ آپکاانٹرویو سب سے اچھا ہوا ہے۔ میں نے کہا میں تو ٹاپ لسٹ پر تھی پھر مجھے بیس امیدواروں کے بعد کیوں بلایا گیا؟کوآرڈینٹر نے کہا کہ یہ اسلیئے تھا کہ آپکا موازنہ دیگر امیدواروں سے اچھی طرح کیا جاسکے ۔ یہ اعلیٰ سرکاری نوکری تھی۔ تین دن بعد پتہ چلا کہ میری جگہ بیوروکریٹ فواد حسن فواد کے بھائی رئوف حسن کو یہ جاب دیدی تھی۔ میں یہ سن کر حیرت اور صدمے میں آ گئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ انٹرویو لینے والے پینل نے اور خا ص طور پر راجہ سکندر سلطان نے مجھے ہی Recommend کیاتھا لیکن سیاسی مصلحتوں نے بازی پلٹ دی۔ راجہ سکندر سلطان صا حب!! یہ تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے کہ آجکل آپ چیف الیکشن کمشنر ہیں اور تنقید کی زد میں ہیں کیونکہ آج آپ پاکستان کے ایک مقتدر ادارے کے سربراہ ہیں۔ ممکن ہے اُنکی نیت اچھی بھی ہو لیکن سیاسی مصلحتیں آدمی کو مجبور اور بے بس کر دیتی ہیں۔پھر بھی راجہ صاحب ایک زیرک، دُور اندیش اور جہاندیدہ شخصیت ہیں۔ آپ سے چند سوالات یاگزارشات کر نا چا ہتی ہوں کیونکہ مسلسل خبریں ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہو نے کو ہے۔ اس ملک کی معیشت تبا ہ حال ہے اور عوام بھوکی ننگی مر رہی ہے۔ آپ عام لوگوں کے معیارِ زندگی، بیروزگاری، مہنگائی، بیماری، ٹینشن اور دکھ کرب کہ نہیں سمجھ سکتے کیونکہ آپکا تعلق شروع سے ہی اشرافیہ سے لیکن آپ یہ بات یقینا محسوس کر سکتے ہیں کہ اس ملک میں وزیر اعظم، صدر، گورنر، وزرائے اعلیٰ، وزیر مشیر، ایم این اے، ایم پی اے اور سنیٹر بننے کے شوقین دس ہزارلوگ ہیں۔ اگر خدا نخواستہ اس ملک میں کچھ نہ بچا تو کیا یہ سب جا ہل الا سفلین ان عہدوں پر برا جمان ہو سکیں گے۔ کیاملک انکے اللّے تللّوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔؟ کیا پڑھے لکھے سفید پوش اور متوسط طبقے کے او پر میٹرک انٹر فیل لوگ بیٹھنے چا ہیں؟ کیا پاکستان اسی لیے قربانیوں سے بنا تھا کہ طاقتور عیا شی کرے اور غریب بھوکا مرے؟؟ الیکشن کمیشن کو پری الیکشن اخرا جات کی مد میں  18ارب روپے موصول ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب ، کے پی کے کے انتخابات کے لیے اخراجات 47 ارب سے بڑھا کر 61 ارب تک مانگے ہیں۔ وزارتِ خزانہ سے اس مد میں 14 ارب اضافی اور 25 ارب فوری ادا کرنے کا مطا لبہ کیا ہے۔ مطلب اگر جنرل الیکشن ہوں تو یہ خرچہ لگ بھگ تین کھرب تک چلا جاتا ہو گا۔ اب مردم شماری بھی کروائی جا رہی ہے جس میں تقریباً دو کھرب خرچہ آئیگا۔ الیکشنزمیں کم از کم بھی تمام امیدوار دس کھرب خرچ کرتے ہو نگے۔ پھر سیٹوں کی خریداری میں بھی پانچ کھرب لگ جاتا ہے۔ مطلب موٹا موٹا خرچہ بیس پچیس کھرب لگ جاتا ہے۔ یہ ایک غریب، مقروض اور مفلوک الحال ملک کا الیکشن ہے اور اس الیکشن کے بعد قوم کو کیا ملتا ہے۔صرف اور صرف کچرا ۔۔الیکشن میں پہلے ہی یہ طے کیوں نہیں کیا جاتا کہ امیدوار چھ چھ جگہ سے الیکشن لڑنے کی بجائے صرف ایک حلقہ سے الیکشن لڑے گا۔ دوبارہ الیکشن کرانے کے اخراجات ، وقت کا ضیاع اور ایک احمقانہ فعل کیوں کیا جاتا ہے؟ ہر امیدوار اگر واقع اہل ہے تو وہ ایک حلقے سے ہی جیت جائے گا۔  پورا سال قوم ضمنی انتخابات کا تماشہ اور پیسے کا ضیاع دیکھتی ہے۔ آپ انتخابی اصلاحات کیوں نہیں لاتے۔ ضمنی انتخابات کی جگہ دوسرے نمبر پر آنیوالے امیدوار کولے آئیںیا کامیاب امیدوار کو اُس کی جگہ نامزد کیا جائے۔ چوہدری نثار علی اور اسحاق ڈار کے کیسزسوالیہ نشان ہیں۔ الیکشن کمیشن اس طرح کا کھلواڑ کرنے والوں کا نو ٹیفکیشن کا لعدم کیوں نہیں کرتا؟ الیکشن کمیشن ایک حساس اور ذمہ دارا دارہ ہے بلکہ ملک کی سلامتی یا تباہی کا حقیقی ذمہ دار ہے جب الیکشن کمیشن کا غذات کی جانچ پڑتال کرتا ہے تو ہمیشہ امیدواروں کے کاغذات میں جھوٹ کے پلندے، غلط اعداد شمار، شادیوں، بچوں اور دیگر معا ملات میں غلط بیانی ہو تی ہے۔ جھوٹے حلفیہ بیان ہو تے ہیں۔ ان پر فی الفور کاروائی کیوں نہیں ہوتی۔ایک معمولی سی نوکری بلکہ سکول کالج یونیورسٹی میں داخلہ کے لیے کریکٹر سرٹیفکیٹ مانگا جاتا ہے لیکن الیکشن کمیشن میں امیدواروں کے کریکٹر کی چھان بین نہیں کی جاتی۔ وہ لوگ جو گا لی گلوچ، مغلظات اور بیہودہ کلچر پیدا کر رہے ہیں جن کے میڈیا سیل اور سوشل میڈیا پر بیٹھے کارندے معا شرے میں تعفن غلاظت انتشار انتقام پھیلا رہے ہیںکیا انکی سرکوبی کرنا اور انکو اکٹہرے میں لانا الیکشن کمیشن کا کام نہیں؟ ہو سکے تو کچھ قوا نین ضابطے بنائیں۔ ہو سکے تو مجھے نہ سہی، خود کو ان سوالوں کا جواب  ضرور دیجئبے گا۔ شکریہ!

ای پیپر دی نیشن