جب کسی معاشرے میں تنقید کا رواج بڑھ جائے اور لوگ ایک دوسرے پر بلاوجہ اور بلاضرورت تنقید کرنے لگیں۔ ایک دوسرے پر نقطہ چینی کرنے لگیں ، دوسروں کی خامیوں کو تلاش کرتے پھریں اور ایک دوسرے کے خلاف دل کی بھڑاس نکالتے رہیں تو وہ معاشرہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا ۔ جب معاشرے کے افراد یا رہنما ایک دوسرے کو برداشت نہ کر سکتے ہوں ، ایک دوسرے کے قریب نہ آ سکتے ہوں اور مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں تو ایسا معاشرہ تباہی کی طرف چلا جاتا ہے۔ عدم برداشت ، ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنا ، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا اور آپس کے تعلقات میں حائل خلیج کو بڑھائے رکھنا معاشرے کے لئے کبھی بھی سودمند ثابت نہیں ہوتا۔
ہمیشہ وہی معاشرہ ترقی کرتا ہے جہاں پر افراد میں شعور ہو ، ایک دوسرے کی بات کو برداشت کر سکتے ہوںاور تنقید برائے تنقید کی وجہ تنقید برائے اصلاح ان کا مقصد ہو۔ ان کی تنقید کا مقصد معاشرے کی ترقی اور معاشرے کو بہتر بنانا ہو، نہ کہ دوسروں کو نیچا دکھانا ہو ۔ ان کا مقصد صرف اقتدار کا حصول نہ ہو بلکہ ملک و قوم کی ترقی ہو ۔ جب یہ صفات افراد معاشرہ میں پیدا ہو جائیں تو وہ معاشرہ ترقی کی راہوں پر گامزن ہو جاتاہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاست دان اور ان کے پیروکار ایک دوسرے کے خلاف صرف تنقید کرتے ہیں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں دوسروں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ہر دم ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا ، گالیاں دینا اور نازیبا الفاظ کا بے دریغ استعمال کرنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے ۔ ایک دوسرے کے اوپر جھوٹے الزامات لگانا ، کبھی ویڈیو لیگ ، کبھی آڈیو لیک کے ذریعے دوسروں پر کیچڑ اچھالنا ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کی عادت بن چکی ہے۔ ہمارے سیاستدان اور نام نہاد سیاسی رہنما ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے ملکی مسائل پر بھی بیٹھ کر بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ، ایک دوسرے کے خلاف سازشیں، تنقید اور کارکنوں کو جھوٹی کہانیاں سنا کر مخالفین کے پیچھے لگائے رکھنا ان کا طرز سیاست ہے۔
جب سیاستدان ملکی و قومی مسائل پر بھی بیٹھ کر بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے ، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے اور ملکی مسائل کو چھوڑ کر ذاتی مفادات کے لئے تگ و دو کریں گے۔ دوسروں پر صرف تنقید کریں گے اور ان کی خامیاں تلاش کریں گے ان کے کسی اچھے کام کی بھی تعریف نہیں کریں گے ۔ جب ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کریں گے اور آپس کے تعلقات کو مزید خراب سے خراب تر کرتے چلے جائیں گے۔ عوام کے ریلیف اور معیشت کی بہتری کے لیے بات نہیں کریں گے ، ذرا ذرا سی بات پر سڑکیں بند کرنا ، ملک جام کر دینا ان کا وطیرہ بن جائے گا تو ملک کیسے ترقی کرپائے گا؟
لہذا سیاستدانوں کو چاہیے کہ اگر وہ واقعی ملک کی ترقی چاہتے ہیں اور ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو اب ایسا طرز سیاست ترک کریں اور آپس میں مل بیٹھ کر مذاکرات کریں اور الزامات اورسازشوں کو چھوڑ کر ایک میز پر بیٹھیں اور ملک کی ترقی کے لیے کام کریں ۔ کیونکہ کوئی سیاستدان اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کے دور حکومت میں کرپشن نہیں ہوئی، اس کے دور حکومت میں منی لانڈرنگ نہیں ہوئی یا اس کے دور میں رشوت نہیں چلی ، لوگوں کے حالات بالکل ٹھیک ہو چکے تھے ۔ایسا کوئی جماعت بھی دعویٰ نہیں کر سکتی ہوں اور کسی جماعت کے پیروکار اس بات پر رہنماؤں کا ساتھ نہیں دے سکتے کہ انہوں نے ملک کو بالکل درست کر دیا تھا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے ادوار تقریباً ایک جیسے رہے تمام ادوار میں سیاستدانوں کے بینک بیلنس تو بڑھتے رہے لیکن عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا اور نہ ہی ملک نے قابل ذکر ترقی کی ۔
اس لیے ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے کی بجائے مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کریں۔ ملکی ترقی کا یہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ملکی ترقی ممکن ہوسکتی ہے کہ سیاستدان ملک بیٹھ کر ملکی و قومی مسائل پر غور کریں اور ان کے حل کے لیے اپنی تجاویز دیں اور اپنی صلاحیتیں ملکی مسائل کے حل کے لیے صرف کریں نہ کہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو صرف اقتدار کے حصول کے لیے لگا دیں۔
مذاکرات ، مسائل کا واحد حل
Jan 31, 2023