گزشتہ تین دنوں سے ایک موضوع مجھے شدید پریشان کئے ہوئے ہے۔ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اتوار کی رات سے ارادہ باندھ رکھا تھا کہ اپنے کالم کے لئے زیادہ سے زیادہ لائیکس اور شیئر کی حرص بھلاکر مذکورہ موضوع کو پیر کی صبح اٹھتے ہی تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔شاعر نے مگر کہہ رکھا ہے کہ ’’چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافرلگی ہوئی‘‘۔
اخبار میں چھپے کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیا تو ٹویٹر پر مشہور ہوئے ایک ٹرینڈ پر نظر پڑی۔ ’’آخر کب نکلو گے؟‘‘ کی دہائی مچاتے ہوئے مذکورہ ٹرینڈ کے ذریعے موبائل فون کے بٹن دباتے ’’انقلابی‘‘ عام پاکستانیوں کی ’’بے حسی‘‘ کی بابت شکوہ کناں تھے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں دو دن قبل ہوا ہوشربا اضافہ ان کی مایوسی کا فوری سبب محسوس ہوا۔غالباََ وہ یہ امید باندھے ہوئے تھے کہ مذکورہ اضافے کا اعلان ہوتے ہی عوام کے ہجوم گھروں سے باہر نکل کر ’’بس بھئی بس‘‘ کا ورد کرتے ہوئے حکمرانوں اور اشرافیہ کے دفاتر اور محل نما مکانوں کو نذر آتش کرنا شروع ہوجائیں گے۔ اس کے بعد کیا کرنا ہے اس کی بابت مذکورہ ٹرینڈ چلانے والوں نے کوئی راستہ دکھانے کا تردد ہی نہیں کیا۔
عوام کی مبینہ بے حسی کی ملامت کرتے ہوئے مذکورہ ٹرینڈ چلانے والے یہ حقیقت بھی فراموش کرتے محسوس ہوئے کہ 2011ء کے اکتوبر سے ہمارے چمن میں عمران خان صاحب کی صورت ایک ’’دیدہ ور‘‘ نمودار ہوا تھا۔’’باریاں‘‘ لینے والے ’’نااہل اور بدعنوان‘‘ سیاستدانوں کو انہوں نے نہایت حقارت سے للکارا۔ان عالمی ادارو ںکی مزاحمت کا عہد بھی باندھا جو ہم جیسے ممالک کی معیشت کو ’’بہتری اور خوش حالی‘‘ کی راہ پر گامزن رکھنے کے بہانے ایسی پالیسیاں متعارف کرواتے ہیں جو غریبوں کو کاکچومرنکال دیتی ہیں۔متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت کو اپنا معیار زندگی برقرار رکھنے کی اذیت میں مبتلا کئے رکھتی ہیں۔فرطِ جذبات میں یہ اعتماد بھی دلاتے رہے کہ وہ اقتدار میں آئے تو آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دیں گے۔
اگست 2018ء میں بالآخر وہ اقتدار سے فیض یاب ہوئے۔ کارپوریٹ حلقوںسے سیاست میں آئے اسد عمر ان کے وزیر خزانہ ہوئے۔عمران حکومت کے 2019-20ء کے مالیاتی سال کا بجٹ بھی لیکن تیار نہیں کر پائے۔عمران خان صاحب نے واٹس ایپ پیغام لکھ کر انہیں وزارت سے فارغ کردیا۔ان کی جگہ ڈاکٹر حفیظ شیخ تعینات ہوئے۔ چارج سنبھالتے ہی انہوں نے آئی ایم ایف سے رجوع کیا۔عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کے ساتھ عجلت میں ایک معاہدہ ہوا۔اس معاہدے میں طے شدہ شرائط ستمبر2022ء تک بتدریج لاگو ہونا تھیں۔جو شرائط طے ہوئی تھیں ان پر عملددرآمد کا جائزہ لیتے ہوئے آئی ایم ایف نے وطن عزیز کے لئے قسط وار ’’امدادی رقوم‘‘ فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔
جس روز وہ معاہدہ منظر عام پر آیا اسی دن سے میں بدنصیب چلانا شروع ہوگیا کہ اس میں عائد شرائط پر عملدرآمد ووٹوںکی محتاج کسی بھی حکومت کے لئے ممکن ہی نہیں۔عمران حکومت کو اس کا حقیقی ادراک مگر مارچ 2021ء میں ہوا جب تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین اسمبلی کے ایک گروہ نے خفیہ رائے شماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ شیخ کے مقابلے میں طویل گوشہ نشینی کے بعد سیاسی اکھاڑے میں اترے یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینٹ کا رکن منتخب کرلیا۔اپنی ہزیمت کا غصہ عمران خان صاحب نے حفیظ شیخ کو وزارت خزانہ سے فارغ کرتے ہوئے اتارا۔ اس کے بعد ’’سیم پیج‘‘ والوں سے تقاضہ کیا کہ وہ انہیں قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ دلوانے کے لئے اپنی قوت استعمال کریں۔ان کی خواہش کی تکمیل ہوئی۔بعدازاں صادق سنجرانی کو بھی چیئرمین سینٹ کے عہدے پر برقرار رکھنے کے لئے ویسی ہی ’’کمک‘‘ فراہم کردی گئی۔
ملکی سیاست کا کئی دہائیوں سے شاہد ہوتے ہوئے میں فریاد کرتارہا کہ جو ’’کمک‘‘ عمران خان صاحب کو بطور وزیر اعظم ’’مقتدر‘‘ کہلاتے حلقوں سے اس وقت تک فراہم ہورہی تھی اس کا برقرار رہناممکن نہیں رہا۔میں ہرگز عقل کل نہیںہوں۔ہماری ’’ریاست‘‘1950ء کی دہائی سے جس انداز میں ’’مقتدر‘‘ ہونا شروع ہوئی تھی اس کے سنجیدہ مطالعہ نے مجھے یہ اصرار کرنے کو مجبور کیا تھا۔1950ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی دنیا دومتحارب گروہوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ ایک گروہ کا قائد امریکہ اور اس کے حواری تھے۔دوسرا گروہ کمیونسٹ روس کا مطیع بن گیا۔ دونوں گروہوں کے مابین ’’سردجنگ‘‘کا آغاز ہوا۔ عوام سے رجوع کئے بغیر ہماری ریاست کے دائمی اداروں نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔روس کے ساتھ ہماری جغرافیائی قربت کو اس کے جواز میں بہت مان سے اچھالا گیا۔پاکستان کی ’’جیواسٹرٹیجک‘‘اہمیت کا ڈھونڈورا پیٹتے ہوئے یہ حقیقت بھلا دی گئی کہ جرمنی بھی دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔امریکہ اگر روس کو واقعتا تھلے لگانا چاہتا ہے تو اس کے خلاف پیش قدمی کا اصل مرکز امریکہ کا اتحادی ہوا مغربی جرمنی ہونا چاہیے تھا۔ روس کو تھلے لگانے کی خواہش کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی مگر یورپ کو پرامن رکھنا چاہ رہے تھے۔ ’’سردجنگ‘‘ کو ’’گرم‘‘ بنانے کے لئے انہیں ہمارے خطے کی ضرورت تھی۔
1950ء کی دہائی میں سردجنگ کو گرم بنانے کے لئے پاکستان میں جوسرمایہ کاری ہوئی تھی اس کے ٹھوس نتائج 1980ء میں نمودار ہونا شروع ہوگئے۔غازی ضیا الحق شہید کی قیادت میں ’’افغان جہاد‘‘ کی سرپرستی ہوئی۔ہم ’’انصارمدینہ‘‘ کا اتباع کرنے کے واہمے میں مبتلا ہوگئے۔ ملکی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر کھڑا کرنے کے بجائے ’’جہاد‘‘ کے لئے آئے ڈالروں سے بازار میں رونق لگاتے رہے۔آٹھ برس کے سفاک مارشل لاء کے بعد جنرل ضیاء نے 1985ء میں ’’غیر جماعتی‘‘ انتخاب کے ذریعے دنیا کو پاکستان میں ’’منتخب پارلیمان‘‘ کی بحالی کا جھانسہ دیا۔جنرل ضیاء کی نگرانی میں ابھری پارلیمان سے جو وزیر اعظم بنا بالآخر وہ بھی یہ سوچنے کو مجبور ہوگیا کہ ’’افغان سیزن‘‘ کے دن تمام ہوئے۔محمد خان جونیجو کے ڈاکٹر محبوب الحق کی جگہ لگائے وزیر خزانہ میاں محمد یٰسین خان وٹو نے 1987ء کا بجٹ تیار کرتے ہوئے ملک میں ’’دفاعی ٹیکس‘‘ متعارف کروانا چاہا۔ فوج کے اعلیٰ افسروں کو سوزوکی گاڑیوں کے استعمال کی جانب راغب کرنے کی کوشش ہوئی۔مجوزہ بجٹ کے خلاف مگر حکمران جماعت ہی میں ’’بغاوت‘‘ ہوگئی۔ جو فیصلے تجویز ہوئے تھے انہیں واپس لینا پڑا۔ جنرل ضیاء اس کے باوجود مطمئن نہیں ہوئے۔ مئی 1988ء میں جونیجو حکومت کو فارغ کردیا۔ ڈاکٹر محبوب الحق غیر منتخب حکومت کے وزیر خزانہ بنادئے گئے۔1988-89ء کا بجٹ ٹی وی خطاب کے ذریعے لاگو کرتے ہوئے ان کی آواز متعدد بار گلوگیر ہوئی۔ جنرل ضیاء بھی معاشی مشکلات کے ہاتھوں زچ ہوکر ’’کوئلوں کی دلالی‘‘ میں ’’منہ کالا‘‘ کرنے کا اعتراف کرنے کو مجبور ہوگئے۔
محبوب الحق مرحوم کو بالآخر آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا پڑا۔جنرل ضیاء فضائی حادثے کی وجہ سے دنیا میں نہ رہے تو نئے انتخاب کی بدولت وزارت عظمیٰ کے منصب پر متمکن ہوئی محترمہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار کے حصول سے قبل جنرل اسلم بیگ کو یقین دلانا پڑا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے پر ہر صورت عمل ہوگا۔اس امر کو مزید یقینی بنانے کے لئے افسر شاہی سے ابھرے وقار احمد جعفری وزارت خزانہ کے بااختیار مدارالمہام بنادئے گئے۔وزارت خارجہ بھی صاحبزادہ یعقوب علی خان کے حوالے کرنا پڑی۔ ایوان صدر میں جمہوری نظام کے لئے جدوجہد کی ثابت قدم علامت نوابزادہ نصراللہ خان کو نظرانداز کرتے ہوئے افسر شاہی سے نمودار ہوئے ایک اور ’’بابے‘‘ غلام اسحاق خان کو بٹھادیا گیا۔
بات لمبی ہوجائے گی۔میری دانست میں گزشتہ برس کے اپریل سے شہباز شریف کی قیادت میں بھان متی کا کنبہ دکھتی جو حکومت ہمیں نظر آرہی ہے اس کے ہاتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت سے بھی کہیں زیادہ ’’بندھے‘‘ ہوئے ہیں۔محترمہ ’’فریش مینڈیٹ‘‘ کی بدولت وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں۔ شہبازشریف ان کے برعکس ایک ایسی اسمبلی کے ذریعے ’’منتخب‘‘ ہوئے جسے وہ اور ان کے اتحادی ’’جعلی‘‘ انتخاب کے ذریعے ’’سیلیکٹ‘‘ ہوئی پکارا کرتے تھے۔اس حکومت کی جان میاں محمد کے بتائے شکنجے میں پھنس چکی ہے۔’’آخر کب نکلو گے‘‘ کی پکار سن کر عوام اگر سڑکوں پر آبھی گئے تب بھی پیٹرول کی قیمت کم ہونے کی گنجائش ہرگز نصیب نہیں ہوگی۔ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت ’’جاہل‘‘ ہوتے ہوئے بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے۔اس کے لئے دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔موبائل فون کے بٹن دباتے ’’انقلابی‘‘ مگر ان کی جبلی بصیرت کا احساس نہیں کرپارہے۔