خبر لیجیے دہن بگڑا فیض عالم 

یہ حقیقت ہے کہ معاشی تباہی اور معاشرتی زوال کے ساتھ ساتھ قوم بدترین اخلاقی زوال کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔قانون فطرت ہے کہ جب کسی قوم سے اخلاقی اقدا ر اٹھ جاتی ہیں تو وہ قوم امانت ، دیانت اور شجاعت کے اوصاف سے محروم ہو جاتی ہے۔دنیا اور آخرت میں ذلت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔اس زوال کے بطن سے ایک ہولناک ابتری جنم لیتی ہے۔معاشرے کے اخلاقی زوال کے ذمہ دار جہاں سوشل میڈیا،پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا ہیں ،وہاں سیاست دانوں کا حصہ بھی کچھ کم نہیں۔سوشل میڈیا کے بہت سے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی۔بدقسمتی سے قوم کا رجحان منفی استعمال کی طرف زیادہ رہا ہے جس کی وجہ سے فحاشی ،عریانی ،بے حیائی کا کلچر فروغ پا رہا ہے۔مشاہدہ یہ ہے کہ معلوماتی ،اخلاقی اور تربیتی مواد کو کوئی پزیرائی نہیں ملتی لیکن فضول مواد دیکھتے ہی دیکھتے کرونا کی طرح وائرل ہو جاتا ہے۔سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا جانے والا مواد کسی بھی قوم کی ذہنیت کا عکاس ہوتا ہے اور اخلاق اور کردار کے ماپنے کا پیمانہ بھی۔توپیارے پڑھنے والے سوشل میڈیا پر قوم کا رجحان اوربدبو دار گندہ اور گھٹیا مواد چیخ چیخ کرقوم کی اخلاقی گراوٹ کی گواہی دے رہا ہے۔گندی زبانوں سے نکلنے والے گندے جملے زبان زد عام ہو کر وہ فکری تعفن پھیلا رہے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔گملوں میں اگنے والے دانشور اور فلسفی دن رات الٹیاں یعنی قے کر رہے ہیں۔زبردستی اپنا ناجائز فلسفہ ٹھونسنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔اور تو اور مذہب کا لبادہ اوڑھے چند گھس بیٹھیے بھی اس دوڑ میں شامل ہو کر دین متین کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔کچھ حضرات اپنے مذموم دنیاوی مقاصد کے لیے تصوف جیسے شاف شفاف چشمے کو آلودہ کر رہے ہیں۔ملک عزیز میں بسنے والے افراد کی کثیر تعداد سیاست دانوں کی گرویدہ ہے۔ یہ افراد بالواسطہ یا بلا واسطہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ منسلک ہیں۔اپنے اپنے سیاسی راہنمائوں کے دیوانے بھی ہیں اور ان کی ادائوں پر مر مٹتے بھی ہیں۔یہ امر واقعہ ہے کہ مہذب دنیا میں سیاسی راہنما ہی عوام کو ایک مثبت سمت کا شعور دیتے ہیںاور قومی نصب العین کے تحت انہیں ایک دوسرے سے پیوست رکھتے ہیں۔ملک کی ترقی اور عوام کی خدمت ان کا نصب العین ہوتا ہے۔بد قسمتی یہ ہوئی کہ مملکت خداد داد کے سیاست دانوں نے اس مقدس مقصد سے رو گردانی کی۔اقتدار کی ہوس نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔نفرت انگیز تقریروں سے پہلے سے ہی کئی فرقوں میں بٹی قوم کو مزید گروہوں میں تقسیم کر دیا۔اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن دوسری سیاسی جماعت کے کارکنوں کو غیر اخلاقی اور غیر پارلیمانی القابات سے نواز رہے ہیں۔ تمام سیاسی رہنما اور شعلہ بیان مقرر دن رات اپنے خطابات اور گفتگو میں ملک کی ترقی کی باتوں اور اصلاح احوال کی کوششوں کی بجائے لفظی گولہ باری کر رہے ہیں،طعن و تشنیع کے تیر برسا رہے ہیں۔حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ 
لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
اس افسوس ناک سانحے پر مستزاد یہ کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاریٹنگ کی دوڑ میں اس منفی مواد اور سرگرمیوں کو نمک مصالحہ لگا کر عام کر رہا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ قوم شدیدنفسیاتی امراض کا شکار ہو چکی ہے۔ہر فرد ذہنی دبائو کا شکار ہے۔حساس طبقہ مایوس ہو رہا ہے۔نفرت ،تعصب اور شدت پسندی کا کلچر فروغ پا رہا ہے۔ نفرت کے اس نصاب کے وجہ سے سماجی ،معاشرتی اور خاندانی نظام تباہی اور بربادی کی طرف جا رہا ہے۔ راہ چلتے لوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو رہے ہیں۔اللہ پاک ملک عزیز کو سلامت رکھے۔مگر بقول شاعر 
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتش گل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے 
اصلاح احوال اور قوم کو اس بد ترین اخلاقی بحران سے نکالنے کاصرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے باہمی ہمدردی، اخوت ، دوستی ، انسانیت کا احترام رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دینا۔یہی دین متین کی تعلیمات ہیں۔اسلام نے ان تمام امور کو عبادت کا درجہ دیا اور اللہ رب العزت کے قرب کا ذریعہ قرار دیا۔صوفیاء عظام جو عظیم مصلح اور مبلغ بھی تھے ،انہوں نے نہ صرف اسلام کی ان روشن تعلیمات کا پرچار کیابلکہ کردار اور عمل کے ذریعے دکھا بھی دیا۔ان ہستیوں کے اقوال ، ملفوظات اور مکتوبات بیش بہا خزانہ اور امانت ہیں جن کو عوام تک پہنچانا اور ان پر عمل کرنے میں ہی نجات ہے۔مثلا برصغیرمیں سب سے بڑے سماجی انقلاب کے بانی خواجہ خوجگان حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے صرف ایک قول پر عمل ہی معاشرے میںعظیم الشان انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوںوہ اس حقیقت کو جان لے کہ اللہ تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہے۔وہ خصلتیں یہ ہیں۔سخاوت دریا کی طرح، شفقت آسمان کی طرح اور خاکساری زمین کی طرح۔اگر ہر فرد دریا کی طرح سخی ہو جائے، آسمان کی طرح شفیق ہو جائے اور زمین کی طرح عاجزی اور انکساری پیدا کر لے تو یہی معاشرہ جنت نظیر بن جائے۔

قاضی عبدالرئوف معینی 

ای پیپر دی نیشن