الیکشن کے دن قریب آتے ہی الیکشن کی گہما گہمی بھی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ جلسے ہو رہے ہیں۔ ریلیوں اور کارنر میٹنگز کا آغاز ہو چکا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں متعدد جلسوں کے بعد اب پنجاب کے طول و عرض میں اپنی پارٹی کے زیر اہتمام جلسو ں سے خطاب کر رہے ہیں۔ بلاول نے اپنا 10نکاتی انتخابی منشور بھی پیش کر دیا ہے۔ جس میں وہ تین سو یونٹ تک مفت بجلی اور تنخواہیں دوگنی کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ اس پر معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ’’نکات‘‘ صرف منشور کی حد تک ہی اچھے لگتے ہیں۔ عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ کیونکہ خزانہ خالی ہے، سر پر آئی ایم ایف کی تلوار بھی لٹک رہی ہے۔
دیر سے سہی، لیکن مسلم لیگ ن نے بھی پنجاب سے اپنے انتخابی جلسوں کا آغاز کر دیا ہے۔ ن لیگ اب تک پنجاب کے کئی بڑے اضلاع میں فقید المثال جلسے کر چکی ہے جن سے میاں محمد نواز شریف، میاں محمد شہباز شریف اور مریم نواز خطاب کرتے ہوئے نظر آئے۔ پی ڈی ایم کی 16ماہ کی بُری حکومتی کارکردگی کے باوجود ن لیگ کے جلسوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد ظاہر کررہی ہے کہ اُس نے اپنی مقبولیت نہیں کھوئی۔ نواز شریف نے گزشتہ ہفتے وہاڑی میں انعقاد پذیر ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں موقع ملا تو وہ حکومت میں آکر بجلی اور پیٹرول سمیت کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں کم کر دیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف بھی ایک سیاسی حقیقت ہے۔ لیکن 9مئی کے واقعات کے بعد اُس پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی اور نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی سمیت کئی پی ٹی آئی رہنما پابندِ سلاسل ہیں۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے پارٹی کی چیئرمین شپ عارضی طور پر بیرسٹر گوہر خاں کے سپرد کی ہوئی ہے‘ جو اِن بُرے حالات میں پارٹی کو چلا رہے ہیں۔ انہیں اڈیالہ جیل سے جو ہدایات ملتی ہیں وہ من و عن اُس پر عمل کرتے ہیں۔ ایک طرح سے پی ٹی آئی اس وقت وکلاء کے نرغے میں ہے ۔ جن کے مابین سنگین نوعیت کے اختلافات کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔ جو میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچتی ہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی اور اُس کی لیڈرشپ انتہائی مشکل حالات سے گزر رہی ہے لیکن تمام تر سروے رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت کا گراف اِن مشکل حالات میں بھی نیچے نہیں آیا،بدستور قائم اور گرفتاری کے بعد اور بھی اوپر گیا ہے۔
اگرچہ پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اُس کے کافی رہنما پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹیو ں میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ پرویز خٹک اور جہانگیر ترین نے بھی علیم خاں کے ساتھ مل کر نئی پارٹیوں کی بنیاد رکھی ہے۔ اِن میں کئی معروف پی ٹی آئی رہنمائوں کی شمولیت بھی ہوئی ہے۔ لیکن بیرسٹر گوہر، علی ظفر اور شعیب شاہین جیسے اہم پی ٹی آئی رہنما اب بھی پُراعتماد ہیں کہ ان تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود پی ٹی آئی فروری کا انتخاب جیتے گی۔ کوئی بھی طاقت اُن کا راستہ نہیں روک سکے گی۔
جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے۔ اُسکے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے انتخابی جلسوں میں نواز شریف اور انکی جماعت پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔ ن لیگ اگرچہ اس طرح کا جواب تو نہیں دے رہی لیکن بلاول کے بیانات پر ن لیگ میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ مریم نواز اور رانا ثناء اللہ کی طرف سے اگرچہ بلاول پر جوابی حملہ کیا گیا ہے۔ لیکن ان جوابی حملوں میں وہ شدت دکھائی نہیں دے رہی جو شدت بلاول کی جانب سے پائی جاتی ہے۔ بلاول کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں سمیت جو بھی آزاد امیدوار کامیاب ہوئے وہ انہیں لے کر اپنی حکومت قائم کریں گے۔ بلاول اپنی تقریروں میں اتنے پُراعتماد نظر آتے ہیں جیسے وہی وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔لیکن یہ سیاست کا کھیل بڑا عجیب ہے۔ ہر وہ جماعت اور لیڈر پیچھے رہ جاتا ہے ناکامیاں اُس کے پیچھے ہوتی ہیں ،جن کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ 2018ء میں پی ٹی آئی کے ساتھ جتنی مہربانیاں کرتی تھی اب اتنی ہی ناراض نظر آتی ہے۔ اِس میں بانی پی ٹی آئی کا بھی قصور ہے۔ جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کر نہیں رکھی۔ جس کا نتیجہ قیدو بند اور سنگین مقدمات کی صورت میں بھگتنا پڑرہا ہے۔ بانی پی ٹی آئی پر 9مئی کے مقدمات سمیت سائفر، 190ملین پائونڈ اور نکاح عدت نکاح کیس عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ قریباً تمام ہی کیس سنگین نوعیت کے ہیں۔ لہٰذا ہمارا مشورہ ہو گا کہ عمران خان اپنے رویے میں لچک پیدا کریں اور افہام و تفہیم کا راستہ اپنائیں کیونکہ اسی میں خاں صاحب کی سیاسی بقاء مضمرہے۔کوئی شک نہیں کہ گرفتاری کے بعد بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ غیر جانبدار سروے رپورٹیں بھی ظاہر کر رہی ہیں کہ ان ابتر حالات میں بھی لوگوں کی اکثریت پی ٹی آئی کے حمایت یادفتہ امیدواروں کو ہی ووٹ دیگی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی موجودگی میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ باوجود اس کے کہ پی ٹی آئی پر برے دن آئے ہوئے ہیں اُس کے رہنمائوں کو پھر بھی امید ہے کہ 8فروری کا ڈوبتا سورج اُن کے لیے فتح کی نئی نوید لے کر آئیگا اور 9فروری کا طلوع ہونیوالا سورج اُن کی کامیابی پر مہر تصدیق ثبت کر دیگا۔اپنی اپنی جگہ سب ہی اپنی کامیابی کے لیے پُرامید ہیں۔ پنجاب جو سیاست کا سب سے بڑا گڑھ ہے وہی فیصلہ کریگا کہ اقتدار کس کے پاس جانا ہے۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی نگاہیں پنجاب پر مرکوز کر رکھی ہیں۔ وہ یہاں سخت محنت کر رہی ہیں۔ تاہم معتبر ذرائع بتا رہے ہیں کہ وفاق اور پنجاب میں کس کی حکومتیں بننے جا رہی ہیں، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مخلوط صوبائی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جائیگا۔ جہاں فیصلے ہوتے ہیں وہاں فیصلے کر لئے گئے ہیں۔ وفاق اور صوبوں کا اقتدار کس کو دینا ہے، اقتدار میں کس کا کتنا حصّہ ہو گا؟ سب فیصلے ہو چکے ہیں۔