پوائنٹ آف نو ریٹرن

خلیل جبران کا ایک قول ہے ‘‘ قابلِ نفرت ہے وہ ’’واعظ‘‘ جو بھرے ہوئے پیٹ سے منبر پر بھوکوں کو صبر کی تلقین کرتا ہے۔ قارئین اس سباق آجکل یہ خاکسار جب اپنے ملک میں جاری سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں سیاسی قائدین کے بھاشن سْنتا ہے تو پھر اسے یہ یقین ہونے لگتا ہے کہ اس میں کوئی شک ہو ہی نہیں سکتا کہ خلیل جبران واقع ہی وہ مفکر تھا جو صدی پہلے مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتا تھا اور بلامبالغہ اس نے جب یہ قول فرمایا تو اسکی نظروں کے سامنے اور کوئی معاشرہ نہیں بلکہ ہمارا آجکا یہی سماج تھا۔ غور کریں ہماری بیحسی پر، یہ آجکی بات نہیں ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے کہ جلسوں میں منشور پیش کیا جاتا ہے اور بات ہوتی ہے غربت کے خاتمہ کے متعلق اور جو شہزادے، شہزادیاں اور مہاراجے اس پر بات کرنے اتے ہیں انھوں نے پشمینہ کے جو کوٹ ، اورکوٹ اور جو ہیرڈز ٹویٹ کی جیکٹیں زیب تن کی ہوتی ہیں انکی مالیت کا کیا آپکو اندازہ ہے کہ وہ کتنے کتنے ہزار پاؤنڈ کی ہوتی ہیں۔ ذرا سوچیئے جن گاڑیوں میں بیٹھ کر وہ خطاب کرنے آتے ہیں انکی مالیت کتنے کڑوڑوں کی ہوتی ہے۔ انکے بھاشن سْننے والے لوگوں کو لگتا ہے کہ غریبوں کا درد رکھنے والے یہ لوگ آجکے دور کے انسان نہیں جو اتنے وسائل ہونے کے باوجود اپنے گھروں میں نہیں بیٹھتے بلکہ غریب عوام کے درد میں اپنے دن رات کا آرام برباد کر کے جسطرح انھوں نے خدمت خلق کی ٹھانی ہوئی ہے اس لحاظ سے انکا رتبہ کسی طور ولیوں، غوثوں اور قطبوں سے کم نہیں لیکن جب ایک ذی ہوش اور ذی شعور انکے اعمال اور کردار کو دیکھتا ہے تو پھر وہ انکے متعلق کیا نتائج اخذ کرتا ہے اور اْنھیں کن القابات سے نوازتا ہے اْنکے لئے مہذب الفاظ تلاش کرنا شائد جوئے شیر لانے کے مترادف ہو۔
قارئین اس ملک میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اگر کسی اہل فکر یا اہل نظر سے آپ اس بارے رجوع کریں تو وہ اس سارے بگاڑ کا موجب صرف اور صرف آپکے سیاستدانوں کو نہیں ٹھہرائے گا بلکہ اسکی نظر میں ہمارے سماجی روئیے اس تباہی کے سب سے بڑے سرخیل ٹھہریں گے۔ سماجی روئیوں کے بارے میں بات چل نکلی ہے تو سب سے پہلے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ہی لے لیتے ہیں۔ بات کا آغاز کرتے ہیں اس سوشل میڈیا سے پہلے اْس پرنٹ میڈیا دور کی جب وہ اپنے شباب پر تھا۔ تصور لیجئے ایڈیٹنگ کے ان مراحل کا جن سے گزر کر ایک خبر فائنل اشاعت کے مرحلے تک پہنچتی تھی اور جس ذمداری کے ساتھ ایڈیٹر صاحب اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ کوئی فیک نیوز تو دور کی بات کسی بھی نیوز میں ہلکی سی مبالغہ آرائی کا کوئی شائبہ تک نظر نہ آئے تو بلاشبہ سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ بات کوئی معجزہ ہی لگتی ہے کیونکہ اب ہمارے سماج میں یہ فیک نیوز ایک ٹرینڈ کی حثیت اختیار کر گیا ہے جہاں کھوتا گھوڑا سب اک برابر۔ لہٰذا اسی بات کو لیتے ہوئے ہمارے سیاستدان بھی کہتے ہیں کہ جب کھوتے گھوڑے کی پہچان ہی ختم ہو گئی ہے تو جو چاہو، جیسے مرضی بیچو، بس دیسی تڑکا تے ولائتی ٹچ ہونی چاہیئے۔
زمینی حقائق کی طرف ائیں تو عرض کروں یہ آج صرف میرے ملک پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ان دنوں پوری دنیا کساد بازاری کی اْس وباء ا شکار ہو چکی ہے جو آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کرتی نظر آ رہی ہے۔ بات صرف اس کساد بازاری کی وباء تک محدود رہتی دکھائی نہیں دے رہی بلکہ اپنے اعمال کی وجہ سے پوری دنیا نے جس میں یوکرائین جنگ اور فلسطین میں ہونے والی حالیہ بربریت کی وجہ سے جس عذاب الٰہی کو دعوت دے رکھی ہے اسکے نتیجے میں غذائی اور توانائی بحران بھی اپنی اْن انتہاؤں کو پہنچتے دکھائی دے رہے ہیں جہاں مائیں اپنے بچوں کی خوراک کیلئے شائد اپنی عزتوں کے سودے کرتی نظر آئیں لیکن ہماری بدنصیبی دیکھیئے کہ جہاں دیگر اقوام ان بحرانوں سے نپٹنے کی تدابیر سوچ رہی ہیں اور انکی ساری فکر صرف اس ایک نقطہ پر مرکوز دکھائی دے رہی ہے کہ کس طرح ان بحرانوں کی وجہ سے اس انسانی المیہ سے بچا جائے جسکی دستک ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ تیز سے تیز تر ہو رہی ہے وہاں ذمدار معاشروں کی اس سوچ کے برعکس ہماری ہر سیاسی پارٹی کی ساری توانائیاں اس گورکھ دھندے کی نظر ہو رہی ہیں کہ انے والے الیکشنز میں کس طرح ایک دفعہ پھر ہم اپنی حکومت بنا لیں۔
قارئین اس خاکسار نے اپنے پچھلے کالم میں تاریخ کے اوراق میں سے زمینی حقائق اْٹھا کر اپکے سامنے ایک ایسا تصویر نامہ پیش کیا تھا جس کا ایک ایک رنگ اور لفظ چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ اس خطہ میں امریکہ بہادر نے جب کسی بڑے مقصد کیلئے کوئی کاروائی کرنی ہوتی ہے تو کس طرح ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ جہاں نہ چاہتے ہوئے بھی فرد واحد کو حکومت اپنے ہاتھوں میں لینی پڑ جاتی ہے۔ آج جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ بحر اسود میں حوثی باغیوں کی آبی جارحیت کو روکنے کیلئے امریکہ پاکستان کی بحری افواج سے مدد لینے کے بارے میں سوچ رہا ہے اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس سباق ایران کو بھی کافی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عرض اتنی ہے پچھلے ہفتے سے ایران کے ساتھ جاری تنازعات اس سے پہلے افغانستان کے ساتھ معاملات کچھ بہت بڑے خدشات کو تقویت بخش رہے ہیں اور اس خاکسار کی تیسری آنکھ وقت سے پہلے ان خدشات کو بھانپتے ہوئے محتاط الفاظ میں پچھلے چند ہفتوں سے اسکا اظہار بھی کر چکی ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ محدود ذاتی ترجیحات سے بلند ہو کر قومی سطح پر ایسی سوچ اور حالات پیدا کیے جائیں جہاں اجتماعی سطح پر ملک کے بارے کوئی فیصلے کیے جائیں نہ کہ آٹھ فروری کو ہم اس مقام پر پہنچے نظر آئیں جسے پوائنٹ آف نو ریٹرن کہا جاتا ہے۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن