حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ایک سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپکے والد ماجد کا نام حضرت خواجہ غیاث الدین حسن تھا ۔ آپ کے والد نہایت نیک سیرت اور انتہائی پرہیز گار انسان تھے ۔ بچپن میں ہی آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے والد ماجد وفات پا گئے ۔ آپ کو ایک چکی اور ایک باغ ورثہ میں ملا ۔
ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے باغ کی دیکھ بھال میں مشغول تھے کہ ایک مجذوب درویش ابراہیم قندوزی کو اپنی طرف آتے دیکھا ۔ آپ نے دوڑ کر ان کا استقبال کیا اور باغ میں لا کر بڑے ادب کے ساتھ بٹھایا اور ایک انگوروں کا گچھا ان کی خدمت میں پیش کیا ۔ درویش نے اپنی بغل سے کھلی کا ایک ٹکڑ ا نکال کر خواجہ کے منہ میں ڈٖال دیا اس ٹکڑے کو چباتے ہی حضرت خواجہ معین الدین کے دل میں عشق و ذوق الہی کا ولولہ پیدا ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے دنیوی معاملات سے منہ پھیر لیا اور اپنا سارا مال و اسباب فروخت کر دیا اور اس سے جتنی بھی رقم حاصل ہوئی وہ ساری درویشوں میں تقسیم کر دی ۔ اور خود حق کی تلاش کے لیے مسافرت اختیارکر لی ۔ آپ کافی عرصہ تک ثمر قند بخارا میں رہے ۔ قرآن مجید حفظ کیا اور دین علوم حاصل کیے ۔ اس کے بعدبھی جب اپنے اصل مقصد کو حاصل نہ کر پائے تو مرشد کی تلاش میں نکل پڑے۔ جب آپ قصہ ہارون میں پہنچے تو شیخ الشیوخ غوث العالم خواجہ عثمان ہارونی کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ آپ نے مرشد کی خدمت میں رہ کر تربیت حاصل کی اور مراحل تکمیل طے کر کے خرقہ خلافت پایا۔
خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے عالی مقام و علو مرتبت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ کو دربار رسالت مآب ﷺقطب المشائخ کا لقب عطا ہوا اور آپ ﷺ نے آپ کو ہند کا روحانی بادشاہ مقرر کیا۔ یہ حضور نبی کریم ﷺ کا فیضان نظر ہی تھا کہ خواجہ غریب نواز کے بعد آنے والے تمام علماء نے آپ کی عظمت و اہمیت و جلالت کے سامنے سر خم تسلیم کیا اور آپ کو بڑے رفیع الدرجات القاب و خطابات سے یاد کیا۔ ریاضت و مجاہدہ کا یہ عالم تھا کہ فجر کی نماز اکثر و بیشتر عشاء کے وضو سے پڑھتے۔ صرف شام کو ایک مرتبہ مثقال برابر سوکھی روٹی پانی سے بھگو کر کھاتے اور پیوند لگا ہوا صاف ستھرا کپڑا پہنتے ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری
Jan 31, 2024