گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ نئے کرنسی نوٹ چھاپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد نوٹ چھاپنے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ کابینہ کی منظوری کے بعد قانونی طور پر ایک مرحلہ سٹیٹ بینک کے بورڈ سے منظوری لینے کا بھی ہے۔ سٹیٹ بینک کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس وقت زیر گردش کرنسی 9 ہزار ارب روپے سے کم ہو کر 8600 ارب روپے پر آگئی ہے، یعنی زیر گردش کرنسی نوٹوں کی مالیت میں 400 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی۔ گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد کے مطابق، نئے نوٹ بین الاقوامی سکیورٹی فیچر کے ساتھ چھاپے جائیں گے۔ گورنر سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ نوٹ نئے سیریل نمبر، ڈیزائن اور ہائی سکیورٹی فیچر کے ساتھ متعارف کرائے جائیں گے۔ گورنر سٹیٹ بینک کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئے نوٹوں کے ڈیزائن کا فریم ورک شروع ہو چکا ہے اور امید ہے کہ یہ مارچ تک مکمل ہو جائے گا۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ بلیک مارکیٹنگ اور جعلی کرنسی نوٹ چھاپنے والوں کی مذموم کارروائیوں کا سد باب کرنے کے لیے سٹیٹ بینک کی طرف سے نئے کرنسی نوٹ چھاپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد کالا دھن چھپا کر رکھنے والے بھی بے نقاب ہوں گے اور جعلی کرنسی چھاپنے اور اس کا کاروبار کرنے والوں کو بھی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت کا اپنا فنانشل مانیٹرنگ یونٹ اور سٹیٹ بینک کا فنانشل انٹیلی جنس یونٹ موجود ہیجس کے ذریعے اس بات کا سراغ لگانے کی ضرورت ہے کہ جعلی کرنسی چھاپنے اور اس کا کاروبار کرنے میں کون افراد ملوث ہیں اور ان کی پشت پناہی کون کررہا ہے۔ علاوہ ازیں، اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ امریکا اور چین جیسے طاقتور اور معاشی اعتبار سے مضبوط ممالک نے اپنی کرنسی کا سو ڈالر یا سو یوان کی مالیت سے بڑا نوٹ جاری کیوں نہیں کیا اور ہم پانچ ہزار کا نوٹ کیوں چھاپ رہے ہیں؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ پانچ ہزار روپے کے نوٹ کی وجہ سے پاکستان میں بد عنوانی اور سمگلنگ جیسے معاملات کو فروغ ملا ہے کیونکہ اتنی بڑی مالیت کے نوٹ کی وجہ سے رقم کا لین دین بہت آسان ہو جاتا ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی اسی وجہ سے گزشتہ برس مئی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ دو ہزار روپے کا نوٹ واپس لے لیا جائے۔ سٹیٹ بینک اور وفاقی حکومت کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے کچھ اہم فیصلے کرنے چاہئیں جن سے ملک کے معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوسکے۔